اب آیئے حضرت علی رضی رضی اللہ عنہ کی ذاتِ گرامی کی طرف . انؓ کے مزاج کی ساخت‘انؓ کی طبیعت ‘اور ان کی سیرت کے عناصر ترکیبی کو سمجھئے اور انؓ کی عظمت کو پہچانیے . آج کی اس تقریر کے لیے ’’مثیلِ عیسیٰ ؑ ‘علی مرتضیٰؓ ‘‘ کا عنوان دیکھ کر بہت سے لوگ چونکے ہوں گے کہ یہ لفظ تو حضرت علیؓ کے غالی عقیدت مندوں نے بھی کبھی استعمال نہیں کیا‘یہ تم کہاں سے لے آئے! تو سن لیجئے‘یہ لفظ میں نے اس حدیث سے لیا ہے جس کے راوی خود حضرت علیؓ ہیں. اس حدیث کو امام احمد بن حنبلؒ اپنی مسند میں لائے ہیں. اس کے علاوہ مستدرک حاکم اور کامل ابن عدی میں بھی یہ حدیث موجود ہے‘اور صاحب مشکوٰۃ نے بھی اسے نقل کیا ہے. خود اہل تشیع کی مستند کتاب ’’نہج البلاغہ‘‘ میں بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ قول قریباً انہی الفاظ کے ساتھ موجود ہے. گویا اس حدیث کی صحت پر اہل سنت اور اہل تشیع دونوں متفق ہیں: 

عن عَلِیٍّ قَالَ قَالَ لِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ  : فِیکَ مَثَلٌ مِنْ عِیسٰی اَبْغَضَتْہُ الْیَھُودُ حَتّٰی بَھَتُوا اُمَّہٗ وَاَحَبَّتْہُ النَّصَارٰی حَتّٰی اَنْزَلُوہُ بِالْمَنْزِلَۃِ الَّتِی لَیْسَتْ لَہٗ. ثُمّ قال: یَھْلِکُ فِیَّ رَجُلَانِ مُحِبٌّ مُفْرِطٌ یُفَرِّظُنِی بِمَا لَیْسَ فِیَّ وَمُبْغِضٌ یَحْمِلُہٗ شَنَآنِی عَلٰی اَنْ یَبْھَتَنِی (۱
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ نے فرمایا: تمہارے اندر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ایک مشابہت پائی جاتی ہے کہ ان سے یہود نے بغض رکھا حتیٰ کہ ان کی والدہ پر (بدکاری کی) تہمت لگائی. اور نصاریٰ نے ان سے انتہائی محبت (۱)مسند احمد،کتاب مسند العشرۃالمبشرین بالجنۃ،باب و من مسند علی بن ابی طالب . کی‘حتیٰ کہ انہیں اس مقام پر پہنچا دیا جو ان کا مقام نہیں. حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ میرے بارے میں بھی دو افراد ہلاک ہوں گے. ایک میری محبت میں افراط کرنے والا کہ مجھ میں وہ اوصاف گِنوائے جو مجھ میں نہیں‘اور ایک مجھ سے بغض رکھنے والا کہ وہ میری دشمنی میں یہاں تک بڑھ جائے کہ مجھ پر بہتان لگائے‘‘.

وہ مشابہت کیا ہے؟ حضرت علیؓ ‘کس پہلو سے مثیلِ عیسیٰ ؑ ہیں؟ حضور فرماتے ہیں کہ جس طرح یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے انتہائی بغض رکھا‘یہاں تک کہ انہوں نے ان کی والدہ پر (بدکاری کی) تہمت لگائی. 
(۱اسی طرح کچھ لوگ حضرت علی سے بغض رکھیں گے.

دوسری انتہا کے متعلق حضور نے فرمایا کہ جیسے نصاریٰ نے حضرت مسیحؑ سے انتہائی محبت کی اور انہیں اس منزل اور مرتبہ تک پہنچا دیا جو ان ؑ کا مقام نہیں ہے‘… مراد یہ ہے کہ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا صلبی بیٹا بنا دیا‘وہ انہیں محض استعارہ کے طور پر اللہ کا بیٹا نہیں کہتے‘اسی لیے وہ ’’ابن‘‘ کے بجائے ’’ولد‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ ’’اقانیم ِثلاثہ‘‘ میں سے ہیں. اسی طرح کچھ لوگ حضرت علیؓ کی محبت میں اس انتہا تک پہنچ جائیں گے کہ ان کا درجہ اللہ کے برابر کر دیں گے.

آنحضور کے اس ارشاد کی وضاحت میں خود حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے بارے میں بھی دو اشخاص ہلاک ہوں گے. یعنی میرے معاملے میں افراط و تفریط کے باعث ہلاکت‘بربادی‘تباہی اور ضلالت کی انتہا کو پہنچ جائیں گے. ایک وہ ہلاک و برباد ہو گا جو میری محبت میں افراط کو پہنچ جائے گا اور میرے لیے وہ اوصاف گِنوائے گا جو میرے اندر نہیں ہیں. دوسرا وہ شخص ہلاک ہو گا جو مجھ سے عداوت‘دشمنی‘عناد رکھے گا اور میری دشمنی اسے یہاں تک 
(۱) اگرچہ آج کل یہودی عموماً بہت محتاط ہیں اور اس بہتان کا برملا اور علی الاعلان اظہار نہیں کرتے، کیونکہ اس وقت دنیا میں امریکہ اور برطانیہ نیز دوسری عیسائی حکومتوں کے سہارے ہی سے تو ان کا وجود باقی ہے‘لیکن اپنی فطرت سے مجبور ہو کر وہ اپنے بغض کے اظہار سے بھی باز نہیں رہ سکتے. چند سال پہلے انہوں نے امریکہ میں حضرت عیسیٰ ؑ کے حالات پر ایک فلم بنائی تھی‘اور وہ وہاں باقاعدہ دکھائی گئی… انہوں نے اس کا نام ہی ’’Son of Man‘‘ یعنی ’’انسان کا بیٹا‘‘ رکھا. اب انسان کا بیٹا کہنے کا مطلب کیا ہوا؟ حضرت مریم کی شادی تو ہوئی نہیں. عیسائی ان کو کنواری مانتے ہیں. اب ’’انسان کا بیٹا‘‘ کہنے کے معنی تو یہ ہوئے کہ حضرت عیسیٰ ؑ‘ کسی انسان کے نطفہ سے ہیں.… نتیجہ کیا نکلا؟ اس کو وہ فلم دیکھنے والے پر چھوڑ دیتے ہیں. پہنچائے گی کہ وہ مجھ پر بہتان لگائے گا‘مجھ سے وہ جرائم منسوب کرے گا جن سے اللہ نے مجھے پاک صاف رکھا ہے. یہ ہے وہ حدیث جس کے حوالہ سے میں نے اپنی آج کی گفتگو کا عنوان ’’مثیلِ عیسیٰ ؑ علی مرتضیٰ ؓ ‘‘ اخذ کیا ہے.