میں اسلام قبول کیا تھا. بعد کے واقعات سے ثابت ہو گیا کہ اس کا قبولِ اسلام ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت تھا. وہ اسلام میں داخل ہو کر اندر ہی اندر ایک طرف توحید و رسالت کی بنیادوں کو منہدم کرنا چاہتا تھا‘دوسری طرف اس کی اسکیم یہ تھی کہ مسلمانوں میں اختلاف و افتراق پیدا کر کے ان کی وحدت کو پارہ پارہ کر دے اور ؏ 

’’تھمتا نہ تھا کسی سے سیلِ رواں ہمارا‘‘

کی کیفیت پیدا ہو گئی تھی اس کے آگے بند باندھے‘اور اس طرح اسلام کو جو قوت و شوکت حاصل ہو رہی تھی ‘اسے پاش پاش کر دے. خلافتِ فاروقی کے قریباً دس سالوں میں اسلامی دعوت اور عسکری فتوحات کا دائرہ اتنی تیزی سے وسیع ہو اکہ وقت کی دو عظیم ترین مملکتوں یعنی روم و فارس کے بیشتر علاقے اسلام کے زیر اقتدار آ گئے. مجوسیوں کی سازش کے نتیجے میں فاروق اعظم حضرت عمر رضی اللہ عنہ شہید کر دیئے گئے. ان کا خیال تھا کہ حضرت عمرؓ کی شہادت کے بعد مسلمانوں میں داخلی انتشار پیدا ہو گا‘ان کے اتحاد میں نقب لگ جائے گی‘ان کے حوصلے پست ہو جائیں گے اور اسلام کی فتوحات کی یلغار رک جائے گی. لیکن حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے زمامِ خلافت سنبھال کر حالات پر پوری طرح قابو پا لیا اور مملکت کے داخلی استحکام میں کوئی رخنہ پیدا ہوا نہ کوئی خلل واقع ہوا.

مفتوحہ علاقوں میں البتہ چند شورشیں اور بغاوتیں اٹھیں لیکن ان کو حضرت عثمانؓ نے نہ صرف فرو کر دیا بلکہ فتوحات کا دائرہ وسیع تر ہونے لگا. حتیٰ کہ فارس (ایران) کا وہ علاقہ جو عہدِ فاروقی میں فتح ہونے سے باقی رہ گیا تھا‘ وہ بھی اسلام کے زیر نگیں آ گیا اور نبی اکرم کی پیش گوئی کے مطابق خلافت ِعثمانی میں کسریٰ کی سطوت اور سلطنت کے پرخچے اڑنے کا کام پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا. اس دوران مفتوحہ ممالک کے بے شمار لوگ اسلام کو دین حق اور وسیلۂ نجات جان کر اسلام میں داخل ہوئے. لیکن کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے منافقانہ طور پر اسلام قبول کیا تھا. ان کے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بغض و عداوت کالا و ا پک رہا تھا اور وہ اسی ارادے اور منصوبے کے ساتھ مسلمانوں میں شامل ہوئے تھے کہ موقع ملتے ہی کوئی شورش اور فتنہ کھڑا کرکے اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچائیں گے.