ابنِ سبا اور پولوس: ایک عجیب مماثلت

اس تناظر میں عبداللہ بن سبا آگے بڑھا. یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جتنا سازشی ذہن یہودی قوم کا ہے اور اس ضمن میں جو بے پناہ مہارت اس قوم کو حاصل ہے اس کا کوئی دوسری قوم مقابلہ نہیں کر سکتی. سازشی منصوبہ بندی میں اس قوم کو کمال حاصل ہے. آپ کو معلوم ہو گا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو دین حق لے کر تشریف لائے تھے وہ خالص دین توحید تھا. چنانچہ انہوں نے یہود کے ان فاسد عقائد‘بدعات اور اعمالِ بد پر شدید تنقیدیں فرمائیں جو ان کے دنیا پرست علماء نے دین خالص کے چشمۂ صافی میں دین ہی کے نام سے داخل کر دی تھیں.

یہود اس کو برداشت نہ کر سکے. ان کے عالموں‘پیشواؤں اور عوام نے حضرت عیسیٰ ؑ کو جھوٹا مدعی ٔ نبوت‘جادوگر اور شعبدہ باز قرار دیا اور یہودی شریعت کے مطابق مرتد اور واجب القتل ٹھہرا کر اپنی عدالت میں مقدمہ چلانے کے بعد انہیں صلیب کے ذریعہ سے سزائے موت دینے کا فیصلہ صادر کر دیا. پھر اُس وقت کی برسرِ اقتدار رومی حکومت کے گورنر سے فیصلہ کے نفاذ کی منطوری بھی حاصل کر لی اور اپنے تئیں حضرت مسیحؑ کو صلیب پر چڑھوا کر دم لیا‘جبکہ قرآن مجید اور احادیثِ صحیحہ کے مطابق حضرت عیسیٰ ؑ کو جسمانی طور پر آسمان پر اٹھا لیا گیا تھا. آپؑ قیامت کے قریب دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے اور آپؑ ہی کے ہاتھوں یہود کا قتل عام ہو گا. اس طرح وہ اس کلی خاتمے کے عذاب کا مزہ چکھیں گے جو رسولوں کا انکار کرنے والی قوموں کے لیے اللہ تعالیٰ نے مقدر کر رکھا ہے. 

یہود اپنی دانست میں حضرت مسیح ؑ کو صلیب پر چڑھوا کر بے فکر ہو گئے تھے کہ انہوں نے علمی و عملی توحید خاص کے چشمہ ٔصافی کو نیست و نابود کر دیا ہے. لیکن مسیحؑ کے مخلص اور صادق 
العہد حواریوں نے انتہائی نامساعد حالات میں بھی آنجنابؑ کی لائی ہوئی ہدایت کی دعوت و تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا. اور جب ان کی مخلصانہ جدوجہد برگ و بار لانے لگی اور دعوتِ حق کے غلبہ کے آثار ہویدا ہونے لگے تو یہودیوں میں کھلبلی مچ گئی. دین خالص کی مقبولیت اور اس کی توسیع کا راستہ روکنے کے لیے ساؤل نام کا ایک مشہور یہودی عالم میدان میں آیا. یہ وہ شخص تھا جو دین عیسوی کا انتہائی دشمن تھا اور اس کی شدید ترین مخالفت میں پیش پیش رہتا تھا‘سچی عیسائیت قبول کرنے والوں پر خود بھی ظلم کرتا اور دوسروں سے بھی کراتا تھا. اس نے دیکھا جگ شدید مخالفت اور مظالم کے باوجود دین عیسوی پھیل رہا ہے تو اس نے پینترا بدلا اور اپنے ایک من گھڑت مکاشفے یا مشاہدے کا اعلان کر کے عیسائیت قبول کر لی . (۱اس نے لوگوں کو بتایا کہ اس مکاشفہ میں حضرت عیسیٰ ؑ نے مجھے اپنا نام بدلنے کی بھی ہدایت کی ہے‘چنانچہ اب میرا نام پولوس ہو گا. یہی شخص اب عیسائی دنیا میں سینٹ (ولی) پولوس یا سینٹ پال کے نام سے مشہور ہے.

اس یہودی زادے نے دینِ عیسوی میں تحریفات پر ہی بس نہیں کیا بلکہ خالص دینِ توحید کو مسخ کر کے اس میں عریاں ترین اور بدترین شرک شامل کر دیا. یہ پال ہی ہے جس نے حضرت مسیح ؑ کو خدا کا باقاعدہ ’’صلبی بیٹا‘‘ قرار دے کر آپؑ کو الوہیت میں شریک ٹھہرایا اور ’’روح القدس‘‘ کو‘جس سے بعض فرقے حضرت مریم اور بعض حضرت جبرئیل ؑ مراد لیتے ہیں ’’اقانیمِ ثلاثہ‘‘ میں شامل کر کے تثلیث کا عقیدہ گھڑا. اسی پال نے شریعت ِموسوی ‘ؑ کو منسوخ قرار دیا جبکہ حضرت عیسیٰ ‘ؑ کا یہ قول موجودہ اناجیل میں اب بھی موجود ہے کہ ’’یہ نہ سمجھنا کہ میں 
(۱) ساؤل (پولوس) نے ایک مجمع عام میں ڈرامائی انداز میں اعلان کیا کہ ’’میں عیسائیت اور عیسائیوں کے خلاف اپنی جدوجہد کے لیے دمشق جا رہا تھا‘راستہ میں ایک منزل میں آسمان سے زمین تک نور ظاہر ہوا اور آسمان ہی سے یسوع مسیح کی آواز مجھے سنائی دی کہ اے سائول تو مجھے کیوں ستاتا ہے؟ اور انہوں نے مجھے ایمان لانے اور اپنے دین کی خدمت اور منادی کرنے کی ہدایت دی اور وصیت فرمائی. میں یہ معجزہ دیکھ کر ان پر ایمان لے آیا اور اب میں نے اپنی زندگی کو یسوع مسیح کے دین کی خدمت اور منادی کے لیے وقف کر دیا ہے… حضرت عیسیٰ ؑکے صحیح الفکر اور صادق الایمان حواریوں نے پال کے اس مکاشفہ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور ان عقائد کی بھی تکذیب کی جو اس نے گھڑ لیے تھے. انہی حواریوں کے باقیاتِ صالحات میں سے تھے‘ وہ راہب جن کی صحبت سے حضرت سلمان فارسی h فیض یاب ہوئے تھے. چند حواریوں نے پال کی باتیں قبول کر لیں جس کے باعث دینِ مسیح مسخ ہو کر رہ گیا. (مرتب) شریعت کو منسوخ کرنے آیا ہوں‘‘. اسی پال نے ’’ کَفّارہ‘‘ کا عقیدہ ایجاد کیا کہ جو بھی حضرت مسیح ؑ پر (اس کے عقیدے کے مطابق) ایمان لائے گا اس کے گناہ آخرت میں اسے کوئی گزند نہیں پہنچائیں گے کیونکہ اپنے بندوں کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے خدا نے اپنا بیٹا صلیب پر چڑھوا دیا. منصف مزاج عیسائی محققین برملا اعتراف کرتے ہیں کہ موجودہ عیسائیت کا کوئی تعلق حضرت عیسیٰ ؑ کے لائے ہوئے دین سے نہیں ہے‘بلکہ یہ خالص پال کی ایجاد ہے.

عبداللہ بن سبا کی سازش پال (پولوس) کی سازش سے کم نہیں تھی. پال نے سچے دین عیسوی میں جو تحریف و تخریب کی تھی اس سے عبداللہ بن سبا کے سازشی ذہن نے یہ سبق لیا کہ توحیدِ خالص کی حامل امت کو گمراہ کرنے‘اسے راہ حق سے ہٹانے اور غیر ضروری مسائل میں الجھانے کا آسان راستہ یہ ہے کہ اُمت کی نظر میں جو مقدس اور محبوب ترین شخصیتیں ہوں‘ ان کے متعلق محبت و عقیدت میں غلو اور افراط و تفریط کے جذبات کو ابھارا جائے اور ان میں سے بعض کو بعض پر غیر ضروری فضیلت دینے کا حربہ استعمال کر کے اختلاف و افتراق پیدا کیا جائے. خلافتِ عثمانی ؓ کے ابتدائی دور میں جبکہ وہ منافقانہ طور پر اسلام لا چکا تھا ‘اس نے مدینہ ہی میں اس کام کی ابتدا کر دی تھی‘لیکن اس نے اپنی ذہانت سے اس وقت اندازہ لگا لیا کہ صرف یہاں ہی نہیں بلکہ پورے حجاز میں اس کی دال گلنے والی نہیں ہے.اس علاقہ میں دینی شعور نہایت گہرا ہے اور دین کے ایسے پاسبان موجود ہیں جن کے ہوتے ہوئے اس کے مذموم مقاصد میں کامیابی کا کوئی امکان نہیں. لہٰذا اس نے مفتوحہ علاقوں کے اہم شہروں کا دورہ شروع کیا.

جیساکہ میں نے عرض کیا تھا کہ ان علاقوں میں جہاں بہت سے لوگ اسلام کی حقانیت اور صحابہ کرامؓ کی سیرت و کردار سے مسخر اور مطمئن ہو کر صدق دل سے ایمان لائے تھے‘وہاں اچھی خاصی تعداد ان لوگوں کی بھی تھی جو اسلامی انقلاب کی طوفانی یلغار اور توسیع سے مرعوب ہو کر مسلمان ہوئے تھے اور ایمان ان کے دلوں میں اترا نہ تھا. یہ لوگ کسی مناسب موقع کی تلاش میں تھے. ابن سبا ایسے ہی لوگوں میں سے اپنے ڈھب کے افراد کو چن کر خفیہ طور پر اپنے ساتھ ملانا شروع کر دیا. پہلے اس نے شام میں کوشش کی لیکن وہاں کوئی شخص اس کے جھانسے میں نہیں آیا. پھر اس نے مصر‘بصرہ اور خاص طور پر کوفہ کو اپنی توجہات کا مرکز بنایا. ان مقامات پر اسے اپنے ڈھنگ کے کچھ منافق اور کچھ جاہل اور ناتربیت یافتہ لوگ مل گئے. ایسے سیدھے سادھے لوگ بھی خاصی تعداد میں اس کی باتوں سے متاثر ہو کر اس کے ساتھ شامل ہو
 گئے جن کے خمیر میں شخصیت پرستی رچی بسی تھی. اس طرح اس نے ایسے لوگوں کا ایک گروہ تیار کر لیا جو اس کی مفسدانہ مہم میں اس کے مددگار بن گئے.