یہ ساری ریشہ دوانیاں یہ یہودی زادہ بڑی‘رازداری‘ ہوشیاری‘اخفاء اور مکرو فریب سے اس طرح انجام دے رہا تھا ‘جس طرح ہمارے دور میں زیر زمین سبوتاژ کی خفیہ تحریکیں چلتی ہیں. وہ خود اور اس کے قریبی ساتھی خفیہ طور پر مختلف شہروں میں جاتے آتے رہتے ہیں. کوفہ کے عُمال کی مصر میں اور مصر کے عمال کی کوفہ میں برائیاں کرتے اور لوگوں کو باور کراتے کہ یہ عُمال اپنے اختیارات سے ناجائز فائدے اٹھا رہے ہیں اور پُر تعیش زندگیاں بسر کر رہے ہیں. پھر یہ خرابیاں خلیفہ ٔوقت حضرت عثمانؓ کے کھاتے میں ڈالی جاتی تھیں. چودہ سو برس پہلے زمانے کا تصور کیجئے جبکہ نہ اخبارات تھے‘نہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن‘اور نہ ہی ڈاک کا معقول انتظام. لوگوں کے پاس دوسرے شہروں کے حالات معلوم کرنے کے ذرائع مفقود تھے. آج اِس ترقی یافتہ دور میں بھی‘جبکہ ذرائع ابلاغ اور وسائلِ معلومات وسیع تر ہو چکے ہیں‘اکثر و بیشتر لاہور جیسے شہر میں ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں صحیح خبر نہیں پہنچتی‘اس میں دسیوں افسانے شامل ہو جاتے ہیں. 

پھر اس عیار یہودی نے مذہبی اور سیاسی محاذ ایک ساتھ کھول رکھے تھے. کہیں وہ یہ شوشہ چھوڑتا کہ حضور سب سے افضل ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ تو دنیا میں واپس آئیں اور حضور نہ آئیں. وہ قرآن مجید کی اس آیت سے استدلال کرتا کہ 
﴿ اِنَّ الَّذِیۡ فَرَضَ عَلَیۡکَ الۡقُرۡاٰنَ لَرَآدُّکَ اِلٰی مَعَادٍ ؕ ﴾. (القصص:۸۵اس آیت کا ترجمہ شیخ الہندؒ نے اس طرح کیا ہے: (اے نبی) جس (اللہ) نے حکم بھیجا تجھ کو قرآن کا وہ پھیر لانے والا ہے تجھ کو پہلی جگہ.‘‘ تمام متقدمین و متاخرین مفسروں نے یہاں ’’رَآدُّکَ اِلٰی مَعَادٍ ؕ‘‘ سے ہجرت کے بعد حضور کا بطورِ فاتح مکہ واپس لوٹنا مراد لیا ہے. اس آیت میں وفات کے بعد حضور کے اس دنیا میں دوبارہ واپس آنے کا ادنی ٰ سا اشارہ بھی موجود نہیں. جب اس نے دیکھا کہ اس کے زیر اثر نادانوں اور نا تربیت یافتہ لوگوں نے قرآنی تعلیم کے یکسر خلاف اس کی بات مان لی ہے تو اس نے محبت و عقیدت کا رخ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف پھیرنے کے لیے اپنے حالی موالیوں کو یہ پٹی پڑھائی کہ ہر نبی کا ایک ’’وصی‘‘ ہوتا ہے جو نبی کا خصوصی قرابت دار اور تربیت یافتہ ہوتا ہے‘جس کو نبی خاص وصیتیں اور اہم ہدایات خفیہ طور پر دیتا ہے. اور علی رضی اللہ عنہ محمد کے وصی ہیں. پھر یہ کہ جس طرح محمد خاتم الانبیاء ہیں‘اسی طرح علی رضی اللہ عنہ بھی خاتم الاوصیاء ہیں. خلافت کے حقیقی حقدار بھی علیؓ ہیں‘لہذا پہلے دو خلفاء غاصب تھے.

پھر اس نے خلیفۂ ثالث حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے خلاف زبانِ طعن دراز کرنی شروع کی… اس نے اہم شہروں میں اپنے داعی اور ایجنٹ پھیلا دیئے جو یہ پراپیگنڈہ کرتے تھے کہ حضرت عثمانؓ ‘کو معزول کر کے حضرت علیؓ ‘کو خلیفہ بنایا جائے. قریباً دس سال کی یہ مذموم سازش اور شروفساد کی یہ خفیہ تحریک بہرحال رنگ لائی اور ۱۸ ذو الحجہ ۲۵ھ کو سبائیوں کے ہاتھوں حضرت عثمان غنی ذوالنورین رضی اللہ عنہ انتہائی مظلومانہ طریق پر شہید کر دیئے گئے. آپؓ نے باغیوں کی سرکوبی کے جملہ وسائل رکھنے کے باوجود اپنی جان کے تحفظ کے لیے ان باغیوں اور منافقوں کے خلاف طاقت استعمال کرنے اور تلوار اٹھانے کی اجازت نہیں دی‘اس لیے کہ ان سبائیوں کے پاس کلمہ طیبہ کی ڈھال موجود تھی.

حضرت عثمانؓ ‘ کو شہید کرنے کے بعد ان سبائیوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو گھیر لیا کہ آپؓ ان سے اور عامۃ المسلمین سے خلافت کی بیعت لے لیں‘لیکن حضرت علیؓ نے اس سے انکار کر دیا. تین دن تک مسندِ خلافت خالی رہی. ادھر یہ سبائی آپؓ کے ساتھ بھی گستاخی کرنے لگے. دوسری طرف اہلِ مدینہ نے بھی حضرت علیؓ کی خدمت میں عرض کیا کہ اُمت بغیر خلیفہ کے رہ گئی ہے. اب آپؓ کے سوا اُمت ِمسلمہ میں کوئی دوسری ایسی شخصیت نہیں ہے جو اس عظیم منصب کے لیے قابل ترجیح ہو. چنانچہ اہل مدینہ کے اصرار پر‘جن میں اصحابِ رسول کی بھی اچھی خاصی تعداد شامل تھی‘حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیعتِ خلافت لے لی.