اہل سنت اور اہل تشیع کی اکثر مستند کتابوں میں مذکور ہے کہ جب عبداللہ بن سبا کی ان گمراہ کن جسارتوں کی خبر حضرت علیؓ تک پہنچی تو انہوں نے اسے بلوایا اور اس سے دریافت کیا کہ کیا تو یہ باتیں کہتا ہے؟ اس نے اقرار کیا اور حضرت علیؓ کے سامنے کھڑے ہو کر برملا کہا کہ میرے دل میں القا ہوا ہے کہ ’’اِنَّکَ اَنْتَ اللّٰہُ‘‘ (بے شک آپ ہی اللہ ہیں)… حضرت علیؓ نے فرمایا کہ اگر اس کفر سے توبہ نہیں کرو گے تو زندہ آگ میں جلوا دوں گا. اس نے کہا کہ آپ ہمارے خدا ہیں‘خدا امتحان لیتا ہے‘ آپ بھی ہمارا امتحان لے رہے ہیں‘ہم اس امتحان میں ثابت قدم رہیں گے.

اس لعین نے سادہ لوح لوگوں پر اس طرح یہ نشہ طاری کر دیا تھا کہ ستر آدمی اس موقع پر اس کے ساتھ تھے اور اس عقیدۂ باطلہ میں اس کے ہم نوا تھے. روایات میں آتا ہے کہ حضرت علیؓ نے ان کو توبہ کے لیے تین دن کی مہلت دی اور قید کرا دیا. لیکن ابن سبا اور اس کے ساتھی باز نہ آئے اور انہوں نے توبہ سے انکار کر دیا. آخر کار حضرت علیؓ نے ایک خندق کھدوائی‘اس میں آگ جلوائی اور ان سب کو آگ اور اس کے دھوئیں سے مار دیا. (۱حضرت علی رضی اللہ عنہ نے امیر المومنین کی حیثیت سے اس بدترین شرک کی جو بدترین سزا ہونی چاہیے تھی وہ نافذ کی. یہ شرک ہی نہیں بلکہ کھلم کھلا ارتداد تھا کیونکہ وہ سب مسلمان ہونے کے مدعی تھے اور خود کو مسلمان کہتے ہوئے کسی انسان کو خدا مان لینے سے بڑا ارتداد اور کون سا ہو گا. بعض روایات کے مطابق ان جلائے جانے والوں میں عبداللہ بن سبا شامل نہیں تھا.