جنگ ِصِفین میں تحکیم قبول کر لینے کا ایک شدید ردعمل یہ ہوا کہ حضرت علیؓ کے لشکر کی ایک معتدبہ اور قابل لحاظ تعداد اس مسئلہ پر آپؓ کی مخالفت کے اعتبار سے دوسری انتہا تک پہنچی اور ’’خوارج‘‘ کہلائی. جب حکم بنانے کا مطالبہ ہوا تو دونوں لشکروں میں سے کسی نے اعتراض نہیں کیا. لیکن اس کے ناکام ہو جانے اور صفین سے کوفہ واپس آنے کے بعد ان خوارج نے حضرت علیؓ پر کفر کا فتویٰ لگایا. معاذاللہ‘ثم معاذ اللہ‘نقلِ کفر کفر نہ باشد‘انہیں کافر قرار دیا. اور کافر ہو گئے تو مرتد ہو گئے. اب توبہ کریں ‘تجدیدِ ایمان کریں‘ورنہ ارتداد کے باعث واجب القتل ہیں .ان کا موقف یہ تھا کہ آپؓ نے تحکیم کیوں قبول کی‘جبکہ الفاظ قرآنی ﴿اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ﴾ کے مطابق اللہ کے سوا کوئی حکم نہیں‘کوئی حاکم نہیں ‘کوئی حکم دینے کا مجاز نہیں. آپؓ نے کیسے کسی کو حَکم مان لیا؟ گویا آپؓ ‘ کو اس بات پر یقین نہیں ہے کہ آپ خلیفہ ٔبرحق ہیں‘ آپؓ نے اس صریح واضح اور بیّن بات کو متنازع تسلیم کر لیا اور یہ مان لیا کہ آپؓ ‘ کی خلافت نزاعی ہے .خوارج ان اعتراضات کی بنیاد پر حضرت علیؓ پر ارتداد کا بہتان لگا کر آپؓ سے توبہ اور تجدیدِ ایمان کا مطالبہ کرتے تھے.

حضرت علیؓ بڑے حلیم الطبع‘صلح جو اور نرم مزاج کے مالک تھے. آپ ؓ کو خون ریزی قطعی پسند نہیں تھی. چنانچہ آپ ؓ نے آخری حد تک کوشش کی کہ خوارج اپنی ضلالت اور گمراہی سے توبہ کر لیں اور باز آ جائیں. حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کے ساتھ گفت و شنید اور افہام و تفہیم کی انتہائی کوشش کی. بہت سے سربر آوردہ لوگوں کو بار بار ان کے پاس بھیجا. ان کے قائدین کو بلا کر ‘خود بھی انہیں خوب سمجھایا اور جب وہ اپنے اس موقف سے ہٹنے کے لیے بالکل تیار نہ 
ہوئے تو یہاں تک فرمایا کہ اگر تم اس عقیدے پر قائم رہو اور یہ باطل نظریہ اپنے تک محدود رکھو تب بھی میں تمہارے خلاف کوئی اقدام نہیں کروں گا‘تم سے کوئی تعرض نہ کروں گا بشرطیکہ تم بدامنی اور غارت گری کا ارتکاب نہ کرو. البتہ اگر فتنہ و فساد پھیلاؤ گے تو پھر مجھے تمہارے خلاف اقدام کرنا پڑے گا. لیکن یہ لوگ اتنے بپھرے ہوئے تھے اور اپنے نظریات میں اتنے پختہ تھے کہ انہوں نے حضرت علیؓ کے خلاف اقدامات کا سلسلہ شروع کر دیا.

ابتدا میں یہ چھاپے اور شب خون مارتے اور فرار ہو جاتے‘دوبدو باقاعدہ جنگ سے گریز کرتے‘لیکن بالآخر نہروان کے مقام پر دونوں لشکر باقاعدہ مقابلے کے لیے آمنے سامنے آ گئے. اُس وقت بھی حضرت علیؓ نے بڑی کوشش کی کہ جنگ کی نوبت نہ آئے‘ان کے ساتھ مصالحت ہو جائے اور انہیں سمجھا دیا جائے. آپؓ نے آخری تدبیر یہ اختیار کی کہ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ ‘کو سفید جھنڈا دے کر ایک طرف کھڑا کر دیا اور اعلان کرا دیا کہ جو بھی اس جھنڈے تلے آ جائے گا اس کے لیے امان ہے. وہ گویا غیر جانبدار ہو گیا‘اِدھر رہا نہ اُدھر رہا.آپؓ کی اس تدبیر سے کافی لوگ خوارج کے لشکر سے نکل کر ادھر چلے گئے. اس کے بعد بھی خوارج کے لشکر میں قریباً ساڑھے چار ہزار افراد باقی رہ گئے. پھر جب دو بدو جنگ ہوئی تو ان میں سے نو افراد کے سوا سب کے سب ہلاک ہو گئے. یہ لوگ اس بہادری سے لڑے کہ ان کی شجاعت کے تذکرے تاریخ کے اوراق میں ثبت ہو گئے. اس سے اندازہ کیجئے کہ بعض اوقات مغالطہ بھی کس قدر شدید ہوتا ہے . تھا تو یہ ان کا مغالطہ ہی‘لیکن اتنا شدید کہ وہ سمجھتے تھے کہ ہم حق پر ہیں اور حضرت علیؓ اور ان کے ساتھی ناحق پر ہیں. چنانچہ انہوں نے اپنے اس باطل نظریئے اور عقیدے کی خاطر اپنی جانیں دے دیں جو ان کے قلوب و اذہان میں بیٹھ گیا تھا. تو یہ بات جان لیجئے کہ نظریئے اور عقیدے کی محبت‘خواہ وہ باطل ہی کیوں نہ ہو‘انسان کو جان کی بازی لگانے پر آمادہ کر دیتی ہے. بہرحال دورِ علوی میں خوارج نے ایک باقاعدہ فرقہ کی صورت اختیار کر لی تھی. ان کے علیحدہ عقائد تھے جن کے بارے میں وہ بڑے متشدد تھے. بنو عباس کی خلافت کے آغاز تک ان کی شورشیں اور بغاوتیں جاری رہی. غالباًعباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے ان کا پوری طرح قلع قمع کیا.