خوارج کے ہاتھوں حضرت علیؓ کی شہادت

در حقیقت جنگِ صفین کے فوراً بعد ہی تین خارجیوں نے خفیہ طور پر طے کیا کہ جب تک تین اشخاص حضرت علیؓ ‘حضرت معاویہؓ ‘اور حضرت عمرو بن العاص ؓ صفحہ ٔ‘ہستی پر موجود ہیں دنیائے اسلام کو خانہ جنگی سے نجات نہیں مل سکتی. چنانچہ یہ تینوں بیک وقت ان تین حضرات کو قتل کرنے پر تیار ہو گئے اور اس کے لیے تاریخ اور وقت طے ہو گیا. ابن ملجم کے ہاتھوں کوفہ میں حضرت علیؓ نے جامِ شہادت نوش کیا. اس شقی اور بدبخت سے ایک خوبصورت خارجی عورت نے مہم کی کامیابی کے بعد شادی کا وعدہ کیا تھا. اسی روز دمشق میں نماز فجر ہی کے دوران حضرت معاویہؓ پر حملہ ہوا لیکن وار اوچھا پڑا اور وہ بچ گئے. حملہ آور گرفتار ہو گیا جسے قتل کر دیا گیا. عمرو بن العاصؓ اس صبح کو خود امامت کے لیے نہیں آئے تھے. ان کے دھوکہ میں وہ صاحب شہید ہوئے جو ان ؓ کی جگہ امامت کرا رہے تھے. عبدالرحمن بن ملجم نے زہر آلود خنجرسے حضرت علیؓ پر اُس وقت وار کیا جب آپؓ فجر کی نماز پڑھا رہے تھے‘سر سجدہ میں تھا اور دل راز و نیازِ الٰہی میں مصروف تھا. سرپرکاری زخم آیا. زندگی کی امید نہ رہی. حضراتِ حسنین رضی اللہ عنہما کو نہایت مفید نصائح کیں اور اس روز یعنی ۲۰ رمضان المبارک ۴۰ ھ جمعہ کی شب کو فضل و کمال‘رشد و ہدایت اور تقویٰ و طہارت کا یہ آفتاب ہمیشہ کے لیے خروب ہو گیا… اِنا للہ وانا الیہ راجعون. ابن ملجم گرفتار ہو گیا تھا. آپؓ نے وصیت کی کہ اگر میں بچ گیا تو خود ہی اس سے نمٹ لوں گا‘اگر میری موت واقع ہو جائے تو قصاص میں اسے قتل کر دیا جائے اور اس کی نعش کی کوئی بے حرمتی نہ کی جائے.