اسی طرح اگر آپ دوسری انتہا کو دیکھنا چاہیں گے‘یعنی حضرت علیؓ کی عداوت اور دشمنی کو‘جس کا خوارج نے ارتکاب کیا تھا‘تو ہم سنیوں میں بھی ایک طبقہ موجود ہے اور یہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں پر مشتمل ہے جو ایک ردِّعمل کا شکار ہو کر حضرت علیؓ کے بارے میں کہتا ہے کہ وہؓ خلافت کے امیدوار تھے یا کسی وجہ سے حضرت عثمانؓ کی شہادت میں ان ؓ کا ہاتھ بھی تھا. معاذ اللہ‘ثم معاذ اللہ. بد قسمتی سے ایسے لوگ ہماری صفوں میں موجود ہیں اور یہ ناصبی کہلاتے ہیں. یہ طبقہ خلافت بنی اُمیہ سے چلا آرہا ہے اور ایک خاص ردِّعمل سے متاثر ہو کر وہی کام کر رہا ہے جو خوارج اور عبداللہ بن سبا نے کیا تھا. نتیجہ تو ایک ہی نکلتا ہے. صحابہؓ ‘ اور وہ بھی کبارِ صحابہؓ ‘میں سے کسی کو متہم کر دیا جائے‘انؓ کی سیرت کو کسی طرح داغدار کر دیا (۱) واضح رہے کہ یہ خطاب جون ۱۹۸۷ء کا ہے. اس وقت صورت حال وہی تھی جس کا حوالہ سطور بالا میں دیا گیا ہے. لیکن اب گزشتہ چند برسوں سے ایک مخصوص طبقہ ’’یا رسول اللہ مدد‘‘ کا نعرہ عام کرنے کی کوشش میں ہے اور کسی حد تک اسے کامیابی بھی ہوئی ہے‘تاہم ہمارے خیال میں یہ ایک وقتی سی بات ہے جو کچھ فرقہ وارانہ ضد بازی کا نتیجہ ہے‘یہ معاملہ اگر اللہ نے چاہا تو زیادہ دیر نہیں چلے گا. 

(ادارہ) جائے تو اصل داغ کہاں لگے گا؟ جناب محمد رسول اللہ کی ذاتِ اقدس پر! صحابہ کرامؓ تو جناب محمد کی تربیت کا شاہکار ہیں. یہ حضور کی دعوت‘تعلیم‘تلقین‘تربیت اور تزکیہ کے اعلیٰ ترین نمونے ہیں. رضوان اللہ علیہم اجمعین. آپ کو معلوم ہے کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے. تو انہی صحابہؓ ‘ہی سے تو پہچانے جائیں گے جناب محمدٌ رسول اللہ . آپ کسی سکول کی ایک عام کلاس میں جاتے ہیں اور اگر کلاس کا نتیجہ اچھا ہے تو آپ اس کا کریڈٹ کس کو دیں گے؟ کامیابی کا سہرا کس کے سر پر باندھیں گے؟ استاد کے سر پر! … لیکن اگر کلاس کا رزلٹ بحیثیت مجموعی خراب آ رہا ہے تو آپ کس کو موردِ الزام ٹھہرائیں گے؟ استاد کو… تو معاملہ درحقیقت یہ ہے کہ ؏ ’’ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں!‘‘

کوئی چاہے حضراتِ ابوبکرؓ و عمرؓ اور عثمانؓ کی سیرت کو داغدار کرے چاہے علیؓ کی سیرت کو ‘بات تو ایک ہی ہے. چاروں اسی درخت کے پھل ہیں. چاہے اِدھر سے تیر چلا دو ‘چاہے اُدھر سے چلا دو‘ وہ تیر پہنچے گا حضرت محمد کی ذاتِ مبارکہ پر. ہاں یہ مکرو فریب اور ہوشیاری و چالاکی ہے کہ اگر براہِ راست حضور کی ذات کو ہدف بنائیں گے تو یقینا خون کی ندیاں بہہ جائیں گی‘چنانچہ عبداللہ بن سبا اور اس کے ساتھیوں نے اس لیے یہ ترکیب سوچی کہ ذرا نیچے اتر کر صحابہؓ ‘کی سیرتوں کو مشکوک بنا دو‘تو اس کی زد از خود حضور کی ذات پر پڑے گی. لہذا جو شخص بھی یہ کام کرتا ہے‘وہ چاہے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کی سریت پر حملہ کرے‘چاہے وہ حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ ‘کی سیرت کو داغدار کرے‘چاہے حضرات حسنینؓ اور حضرت معاویہؓ ‘کی سیرت کو داغدار کرے‘بات تو حضور کی ذات تک پہنچے گی. لہذا خود کو سُنی کہنے والا جو شخص بھی ان حضرات کرامؓ میں سے کسی کی ذات پر بھی حملہ کرے گا‘ان کی نیتوں پر کسی شک کا اظہار کرے گا یا ان کے بارے میں کوئی الزام تراشی کرے گا ‘میرے نزدیک اسے سنی کہلانے کا حق قطعاً نہیں ہے‘کیونکہ جو بھی یہ کام کرتا ہے. وہ گویا آنحضور اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے دشمنوں کا آلۂ کار بن رہا ہے. مسئلہ کے اس پہلوکی اہمیت کی وضاحت کے لیے میں نبی اکرم کی ایک مشہور حدیث سنا کر آگے بڑھوں گا. یہ وہ حدیث ہے جو عموماً خطباتِ جمعہ میں بھی پڑھی جاتی ہے. اس کے راوی حضرت عبداللہ بن مغفلؓ ہیں.

وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اللّٰہَ اللّٰہَ فِی اَصْحابِی‘لا تَـتّخِذُوھم غَرَضًا بعدی‘فمَن احبَّھم فَبِحُبِّی اَحبَّھم‘وَمن اَبْغَضَھُمْ فَبُبِغْضِی اَبْغَضَھُمْ‘وَمَن آزاھُمْ فقد آذانِی‘ومَن آذانی فقد اذَی اللّٰہَ ‘ وَمن آذَی اللّٰہَ فَـیُوشِکُ اَنْ یَأخُذَہ (۱)

’’میرے صحابہؓ کے بارے میں اللہ سے ڈرو‘ان کو میرے بعد (تنقید کا) نشانہ نہ بناؤ. پس جس شخص نے ان کو محبوب جانا تو میری محبت کی وجہ سے محبوب جانا اور جس شخص نے ان کے ساتھ بغض رکھا تو میرے ساتھ بغض کی وجہ سے ان کے ساتھ بغض رکھا. اور جس نے ان کو تکلیف دی ‘اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی ‘اس نے اللہ کو تکلیف دی اور جس نے اللہ کو تکلیف دی تو عنقریب وہ اسے گرفت میں لے لے گا‘‘.