حضرت علیؓ کی شخصیت میں کمال درجہ کی شجاعت اور بہادری تھی جو صرف چھپی ہوئی نہیں تھی بلکہ ظاہر و باہر تھی. اگرچہ حضرت ابو بکرؓ ‘بھی یقینا بہت شجاع تھے. اس خطبہ کے الفاظ یاد کیجئے جو حضرت علیؓ نے صدیق اکبرؓ کے انتقال پر دیا تھا کہ ’’اے ابابکرؓ ! ہم میں سب سے زیادہ شجاع اور بہادر تم تھے. وہ تم تھے جو بدر کی شب محمدٌ رسول اللہ کی آرام گاہ پر پہرہ دے رہے تھے اور اللہ نے اپنے پیارے رسول کی غارِ ثور اور اثنائے سفر ہجرت کی رفاقت کے لیے تمہیں منتخب فرمایا تھا.‘‘ لیکن حضرت ابوبکرؓ ‘کی شجاعت کا ظہور اس طرح سے نہیں ہوا جس طرح حضرت علیؓ کی شجاعت کا ہوا.

حضرت ابو بکرؓ کا کسی (۱)سنن الترمذی ،کتاب المناقب عن رسول اللہ ،باب فمن سب اصحاب النبی . پہلوان سے مقابلے کا کوئی ذکر سیرت کی کتابوں میں نہیں ملتا. ارادہ اور عزم کی بات اور ہے کہ جب آپؓ کے بیٹے عبدالرحمن نے‘جو غزوۂ بدر تک ایمان نہیں لائے تھے‘ایمان لانے کے بعد آپؓ سے کہا کہ ’’ابا جان‘بدر میں آپؓ میری تلوار کی زد میں آ گئے تھے لیکن میں نے آپؓ ‘کا لحاظ کیا اور اپنا ہاتھ روک لیا‘‘ تو جواب میں آپؓ نے فرمایا: ’’بیٹے‘تم نے یہ اس لیے کیا تم باطل کے لیے لڑ رہے تھے.

خدا کی قسم اگر تم میری زد میں آ جاتے تو میں تمہیں کبھی نہ چھوڑتا‘‘. اسی عزیمت‘اسی قوتِ ارادی‘اس استقامت اور اسی شجاعت کا اظہار اُس وقت ہوا جب مسندِ خلافت پر بیٹھنے کے بعد آپؓ سے حضرت عمر فاروقؓ اور دوسرے اکابر صحابہؓ نے یہ کہا تھا کہ مانعینِ زکوٰۃ کے خلاف فی الوقت محاذ نہ کھو لیے‘اس لیے کہ مسلمانوں کی بیشتر افواج فتنۂ ارتداد کی سرکوبی میں مصروف تھیں جو بڑے پیمانے پر عرب کے بعض علاقوں میں پھیل گیا تھا‘تو اس پیکرِ عزیمت نے کہا تھا کہ ’’خدا کی قسم اگر مجھے یہ یقین ہو کہ کتے میری لاش کو نوچ کھسوٹ ڈالیں گے تب بھی میں ان مانعینِ زکوٰۃ کے خلاف اقدام سے باز نہیں آؤں گا اور اگر حضور کے زمانے میں زکوٰۃ میں اونٹ کے ساتھ رسی بھی دیتے تھے اور اب رسی نہ دیں تو بھی میں ان کے خلاف جہاد کروں گا. کسی نے میرا ساتھ نہ دیا تو میں اکیلا جہاد کروں گا. لیکن اسے چھپی ہوئی (potential)شجاعت کہا جائے گا. یہ اس طرح ظاہر نہیں ہوئی جیسے میدانِ جنگ میں حضرت حمزہؓ کی شجاعت اور حضرت عمرؓ کی بہادری کا ظہور ہوا. حضرت عمرؓ ‘کی وہ بات یاد کیجئے جو آپؓ نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرتے وقت کہی. آپؓ نے پہلے کعبہ کا طواف کیا اور پھر اعلان کیا کہ میں مدینہ ہجرت کر رہا ہوں‘جس کی خواہش ہو کہ اس کی ماں اس کو روئے وہ آئے اور میرا راستہ روک لے . سب کے سب مشرک دم بخود رہ گئے. یہ بات حضرت ابوبکرؓ میں آپ کو نظر نہیں آئے گی. 

میں یہاں ایک بات اور بھی عرض کردوں‘لیکن خدارا میری بات کو غلط مفہوم میں نہ لیجئے گا. نبی اکرم میں شجاعت اور بہادری بتمام و کمال موجود تھی‘لیکن اس کا بھی اس طور سے ظہور نہیں ہوا‘چنانچہ آپ کو یہ بات کہیں نہیں ملے گی کہ حضور نے کسی سے دُوبدُو مقابلہ کیا ہو. لیکن بلاریب و شبہ ساری نوع انسانی میں سب سے زیادہ شجاع اور بہادر جناب محمد ہیں. اگر شجاعت کوئی اعلیٰ وصف ہے‘اور یقینا ہے‘تو کیا وہ سب سے بڑھ کر حضور میں نہیں ہو گی؟ ہے‘یقینا ہے. اور اس کا ظہور غزوۂ حنین کے موقع پر ہوا بھی ہے. جب ایک عام بھگدڑ مچ گئی‘لوگ منتشر ہو گئے تو حضور ‘اس وقت اپنی سواری سے اترے‘علم اپنے دستِ مبارک میں لیا اور یہ رجز پڑھا ؎

اَنَا النّبِیُّ لَا کَذِب اَنَا ابنُ عَبدِ المُطَّلب
(۱)

میرا گمان ہے کہ یہ رجز حضور نے فی البدیہ پڑھا ہے اور گویا یہ واحد شعر ہے جو حضور نے اپنی پوری زندگی میں کہا ہے. بہرحال اُس وقت آپؐ ‘کی شجاعت سامنے آئی ہے. تو ایک شجاعت چھپی ہوئی ہوتی ہے جبکہ ایک ہوتی ہے ظاہر و باہر شجاعت. تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شجاعت صرف چھپی ہوئی نہیں بلکہ ظاہر و باہر اور نمایاں شجاعت ہے. وہ شجاعت جو بدر میں ظاہر ہو رہی ہے جب کہ شیبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ بن ربیعہ دونوں حضرت علیؓ کے ہاتھوں واصلِ جہنم ہوئے. پھر آپؓ کی تلوار نے بجلی کی طرح چمک چمک کر اعدائے اسلام کے خرمنِ ہستی کو جلا دیا. غزوۂ احد میں حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے شہید ہونے کے بعد حضرت علیؓ نے بڑھ کر انؓ کے ہاتھ سے عَلم سنبھالا اور چند صحابیوں کے ساتھ مل کر بے جگری کے ساتھ لڑتے ہوئے مشرکین کا رخ پھیر دیا جو حضور کی طرف یلغار کی کوشش کر رہے تھے.

پھر اسی شجاعت کا ظہور ۵ ھ میں غزوۂ احزاب کے موقع پر ہوا. چند کفار کبھی کبھی گھوڑوں پر سوار ہو کر خندق میں گھس کر حملہ کیا کرتے تھے. ایک دفعہ حملہ آوروں میں عمرو بن عبدِوُد بھی شامل تھا جو پورے عرب میں مانا ہوا بہت بڑا پہلوان تھا. اُس وقت اس کی عمر نوے برس کی تھی لیکن پورے عرب میں کوئی اس کے ساتھ مقابلے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا. اس نے مبارزت طلب کی اور نعرہ لگایا کہ ہے کوئی جو میرا دوبدو مقابلہ کرے؟ اس وقت حضرت علیؓ مقابلہ کے لیے آ گے بڑھے. وہ ہنسا اور بولا: تم میرا مقابلہ کرنے آئے ہو؟ نام کیا ہے تمہارا؟ اس نے بڑے استہزائیہ انداز میں کہا کہ میری عادت رہی ہے کہ جب میرا کسی سے مقابلہ ہوتا ہے تو اس کی تین خواہشوں میں سے ایک ضرور پوری کرتا ہوں. بولو تمہاری کیا خواہش ہے؟ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ میری اوّلین خواہش تو یہ ہے کہ تم ایمان لے آؤ. اس نے کہا کہ اس کا کوئی سوال نہیں. حضرت علیؓ بولے کہ میری دوسری خواہش یہ ہے کہ تم میدانِ جنگ سے واپس چلے جاؤ. وہ ہنسا‘اور بولا یہ بزدلی کا کام میں کروں! یہ کبھی نہیں ہو سکتا. حضرت علیؓ نے فرمایا تو پھر تیسری خواہش یہ ہے کہ آؤ مقابلہ کرو تاکہ میں تمہیں قتل کر دوں. یہ حضرت علیؓ کی ذہانت و فطانت کا بھی مظہر ہے کہ آنجنابؓ نے پہلے اس کو حکمت کے ساتھ دعوتِ حق دی‘پھر دعوتِ 
(۱) صحیح البخاری،کتاب الجہادوالسیر،باب من صف اصحابہ عند الھزیمۃ.....

و صحیح مسلم کتاب الجہادوالسیر،باب فی غزوۃحنین. 
مقابلہ. لیکن اس بدبخت کے نصیب میں ایمان کی سعادت نہیں تھی. حضرت علیh کی بات پر وہ بھونچکارہ گیا کہ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ میرے منہ پر کوئی مجھے قتل کرنے کی دھمکی دے. پھر وہ برہم ہو کر گھوڑے سے کود پڑا. تھوڑی دیر تک شجاعانہ مقابلہ کے بعد حضرت علیؓ ‘ کی تلوار نے اس کو واصلِ جہنم کر دیا.
غزوۂ خیبر کے موقع پر حضرت علیؓ ‘حضور کے ہمرکاب تھے. خیبر میں یہودیوں کے ساتھ سات قلعے تھے. چھ تو فتح ہو گئے‘لیکن آخری قلعہ قموص زیادہ سخت ثابت ہوا. پہلے ابوبکرؓ اور ان کے بعد حضرت عمرؓ اس کی تسخیر کے لیے مامور ہوئے لیکن کامیابی نہ ہوئی. پھر حضور نے فرمایا کہ میں کل ایک ایسے بہادر کو عَلم دوں گا جو خدا اور رسول کا محبوب ہے اور اس قلعہ کی فتح اس کے لیے مقدر ہے. صبح ہوئی تو ہر جان نثار متمنی تھا کہ کاش اس فخر و شرف کا تاج اس کے سر کی زینت بنے. حضور نے دفعتاً حضرت علیؓ ‘کو پکارا. وہ آشوبِ چشم میں مبتلا تھے. حضورؓ نے ان کی آنکھوں پر لعابِ دہن لگایا جس سے ان کی تکلیف جاتی رہی. پھر عَلم مرحمت فرمایا. اس قلعہ کا سردار مرحب نامی یہودی تھا جو فنونِ حرب میں یکتا و یگانہ شمار ہوتا تھا‘جثہ کے لحاظ سے بھی بڑا لحیم اور شحیم تھا. علَم علم لینے کے بعد حضرت علیؓ نے پوچھا: حضور کیا میں قلعہ والوں کو قتل کروں؟ حضور نے اس موقع پر یہ تاریخی جملے فرمائے: ’’نہیں علیؓ پہلے ان پر اسلام پیش کرو‘ان کو دعوت دو‘کیونکہ تمہاری کوششوں سے اگر ایک شخص بھی مسلمان ہو گیا تو وہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے. اس حدیث شریف کے آخری حصہ کے الفاظ یہ ہیں: 
’’فَوَاللّٰہِ لَاَنْ یَھْدِی اللّٰہُ بِکَ رجلاً واحدًا خیرٌلک مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ‘‘ (۱

(یہ حدیث متفق علیہ ہے اور اس کے راوی حضرت سہل بن سعدؓ ہیں.)
حضرت علیؓ نے جب قلعہ قموص کا محاصرہ کیا تو مرحب آہن پوش ہو کر ہتھیار سجا کر بڑے جوش و خروش کے ساتھ یہ متکبرانہ رجز پڑھتا ہوا مبارزت کے لیے نکلا ؎ 

قَدْ عَلِمَتْ خَیبُر اَ‘نّی مَرحبُ
شَاکِی السلاخ بَطلٌ مُجَرَّبُ 
اِذا الحُروبُ اَقْبَلَتْ تَلَھَّبُ

(۱) صحیح البخاری،کتاب المناقب،باب مناقب علی ابن ابی طالب.......و صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ،باب من فضائل علی بن ابی طالب. ’’خیبر مجھے جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں‘مسلح پوش‘بہادر اور تجربہ کار ہوں. جب جنگ میرے سامنے آتی ہے تو بھڑک اٹھتی ہے‘‘.

فاتح خیبر علی مرتضیٰ ؓ نے جواب میں یہ رجز پڑھا ؎ 

اَنا الّذی سمتنی اُمّی حَیدَرَہ
کلَیثِ غاباتٍ کریہِ الْمَنْظَرَہ
اُوفِیھِمُ بِالصَّاعِ کَیْلَ السَّنْدَرَۃ

’’میں وہ ہوں جس کا نام میری ماں نے‘حیدر رکھا ہے. جنگل کے شیر کی طرح مہیب اور ڈراؤنا. میں دشمنوں کو نہایت سرعت سے قتل کرتا ہوں‘‘.

اور جھپٹ کر ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کر دیا. اس کے بعد آپؓ نے قلعہ پر حملہ کیا اور حیرت انگیز شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کو فتح کر لیا. غزوۂ حنین میں بھگدڑ کے وقت ثابت قدم رہنے والوں میں حضرت علیؓ بھی شامل تھے.