شعرو ادب اور فصاحت و بلاغت

اب جبکہ حضرت علیؓ کے ایک رجز کا ذکر آ گیا تو عرض کرتا چلوں کہ جہاں آپؓ میں ظاہر و باہر شجاعت کا جوہر موجود ہے اور قوائے عملیہ انتہائی چاق و چوبند ہیں‘جن کے ظہور کے چند واقعات میں نے آپ کو سنائے‘وہاں حضرت علیؓ ‘شعر و ادب میں بھی بڑا اونچا مقام رکھتے ہیں. آپؓ فصاحت و بلاغت کی معراج پر ہیں. عام طور پر جو لوگ شجاع اور مردِ میدان ہوتے ہیں‘ان میں شعر و ادب اور فصاحت و بلاغت کا ذوق بہت کم ہوتا ہے‘لیکن حضرت علیؓ اس بحر کے بھی شناور ہیں. افصح العرب تو یقینا جناب محمد ہیں. حضور  کا اپنا قول ہے ’’اَنَا اَفْصَحُ الْعَرَبِ‘‘ لیکن حضور کے بعد خطابت‘فصاحت و بلاغت اور شاعری میں میرے مطالعہ کے بعد صحابہ کرامؓ میں حضرت علیؓ کے آس پاس آنے والا بھی کوئی اور نہیں ہے. حضرت علیؓ ان گنتی کے چند صحابہؓمیں سے تھے جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے. پھر آپؓ عربی گرامر کے موجدہیں‘علمِ نحو کے ابتدائی اصول آپؓ ہی کی طرف منسوب ہیں. حضرت علیؓ کے اشعارپڑھئے‘آج بھی انسان وجد میں آتا ہے. کتنے حکیمانہ اشعار ہیں اور ان میں کتنی بے ساختگی ہے ؎

یغوصُ البحرَ مَن طلب اللّالی
ومَن طلَب العُلٰی سھِر اللّیالی
ومن طلَب العُلٰی مِن غیر کدٍّ
اضاع العمرَ فِی طلبِ المُحال

ترجمہ: ’’جو کوئی بھی موتی چاہتا ہے تو اسے سمندر میں غوطہ لگانا ہی پڑتا ہے. جو شخص زندگی میں کوئی اونچا مقام حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے راتوں کو جاگنا پڑتا ہے جو کوئی بلندی بھی چاہے اور محنت نہ کرے وہ شخص اپنی عمر کو ایک محال شے کی طلب میں ضائع کر بیٹھتا ہے‘‘.