اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ حضرت علی مرتضیٰ ؓ ‘کی ذات پر وہ زہد ختم ہو گیا جس کا پیکرِ کامل جناب محمد تھے. بچپن سے پچیس چھبیس برس کی عمر تک حضرت علیؓ رسول اللہ کے ساتھ رہے. آنحضور کا پر تو اور عکس آپؓ کی شخصیت میں پیدا ہونا لازمی تھا. لہذا آپؓ کی زندگی میں دنیوی عیش و آرام کا کیا سوال! حضرت فاطمۃ الزہراء کے ساتھ رشتہ ازدواج قائم ہوا ‘الگ مکان میں رہے. اس گھریلو زندگی کی آسائشوں کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ حضور نے آپؓ کی زرہ فروخت کر کے گھر گرہستی کے لیے جو سامان خرید کر دیا تھا‘ عمر بھر اس میں کوئی اضافہ نہ ہو سکا. حضرت فاطمہؓ کے ہاتھوں میں چکی پیستے پیستے گٹے پڑ گئے تھے. بخاری شریف کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ کی لخت جگرؓ اور آپؓ نے مل کر آنحضور سے ایک کنیز یا غلام دینے کی درخواست کی. سرورِ عالم نے فرمایا کہ کیا میں تم کو اس سے بہتر چیز نہ بتا دوں؟ پھر آپؐ فرمایا کہ تم دونوں جب رات کو سونے لگو تو ۳۳ بار‘ ۳۳ بار تحمید اور ۳۴ بار تکبیر کہہ لیا کرو. حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ اُس وقت سے میں نے اس تسبیح کو کبھی ترک نہیں کیا. کسی نے پوچھا کیا صِفین کی شب میں بھی نہیں؟ فرمایا کہ ’’ہاں صفین میں بھی نہیں‘‘.

فقر و درویشی کا یہ عالم تھا کہ ہفتوں گھر میں دھواں نہیں اٹھتا تھا. بھوک کی شدت ستاتی تو پیٹ پر پتھر باندھ لیتے. عہدِ فاروقی میں جب آپؓ ‘کا وظیفہ مقرر ہوا تو آپ اپنی ضروریات کے بقدر رکھ کر باقی سارا مال اللہ کی راہ میں دے دیتے تھے. ایامِ خلافت میں بھی زہد میں کوئی فرق نہیں آیا. موٹا جھوٹا لباس اور روکھا پھیکا کھانا آپؓ کے لیے دنیا کی بڑی نعمت تھی. مسند احمدؒ ہی کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ ایک مہمان شریکِ طعام تھے‘انہوں نے معمولی اور سادہ کھانا دیکھ کر کہا: امیر المومنین! بیت المال میں اللہ کے فضل سے مال و اسباب کی کافی بہتات ہے. آپؓ نے جواب فرمایا ’’خلیفۂ وقت کو مسلمانوں کے مال میں صرف اتنا حق ہے کہ سادگی کے ساتھ خود کھائے اور اپنے اہل و عیال کو کھلائے‘بقیہ سارا مال خلقِ خدا کے لیے ہے‘‘. دورِ خلافت میں جب تک مدینہ میں قیام رہا آپؓ کی رہائش اپنے سابقہ مٹی اور گارے سے بنے ہوئے حجرے میں رہی.

جب دارالخلافہ کوفہ منتقل کیا تو دارالامارت میں قیام کی بجائے ایک میدان میں سادہ خیمہ لگوا کر اس میں قیام کیا‘اور فرمایا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے ہمیشہ محلات کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا‘مجھے بھی اس کی حاجت نہیں‘میرے لیے میدان میں خیمہ کافی ہے‘‘. پھر خیمہ پر نہ کوئی دربان تھا نہ کوئی حاجب. خلیفۂ وقت ایک معمولی غریب کی طرح زندگی بسر کرتے تھے. فیاضی اور داد ود ہش کا یہ عالم تھا کہ دورِ خلافت میں آپؓ ‘عموماً بیت المال کا سارا مال تقسیم کر کے جھاڑو پھیر دیا کرتے اور پھر دو رکعت نماز شکرانے کے طور پر ادا فرماتے. ازالۃ الخِفاء میں شاہ ولی اللہؒ نے ابو عمر بن عبدالبرؒ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ حضرت علیؓ نے اپنے دورِ خلافت میں ایک دفعہ منبر پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا ’’میری تلوار کون خریدتا ہے؟ واللہ اگر میرے پاس تہمد کی قیمت ہوتی (جس کی مجھے اشد ضرورت ہے) تو اس کو فروخت نہ کرتا.‘‘ ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا ’’امیر المومنین میں آپؓ ‘کو تہمد کی قیمت بطور قرض دیتا ہوں‘‘.

صحیح بخاری کی روایت ہے کہ سورۃ الدھر کی یہ آیت 
﴿وَ یُطۡعِمُوۡنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسۡکِیۡنًا وَّ یَتِیۡمًا وَّ اَسِیۡرًا ﴿۸﴾﴾ حضرت علیؓ کے زہد اور انفاق و ایثار کی ستائش کے طور پر نازل ہوئی. ایک دفعہ آپؓنے رات بھر ایک باغ کو سینچ کر مزدوری میں تھوڑے سے جَو حاصل کئے. صبح ان کا ایک تہائی حصہ پسوا کر حریرہ پکوانے کا انتظام کیا. ابھی تیار ہی ہوا تھا کہ ایک مسکین نے صدا لگائی آپؓ نے سب حریرہ اٹھا کر اسے دے دیا. پھر بقیہ میں سے دوسرے ثلث کے پکوانے کا انتظام کیا لیکن جیسے ہی وہ تیار ہوا ‘ایک مسکین یتیم نے دستِ سوال بڑھایا‘آپؓ نے یہ اس کی نذر کر دیا. اب جو تیسرا حصہ بچا تھا وہ پکنے کے بعد ایک مشرک قیدی کے سوال پر اس کو دے دیا گیا اور اس اللہ کے بندے نے رات بھر کی مشقت سے کمائی ہوئی پونجی اللہ کی راہ میں دے کر خود بھی فاقہ کیا اور اسؓ کے اہل و عیال بھی دن بھر فاقہ سے رہے. آپؓ کے پاس دنیوی دولت نہ تھی لیکن دل اتنا غنی تھا کہ شاید ہی کوئی سائل کبھی آپؓ کے در سے خالی ہاتھ گیا ہو.