آپؓ کے متعلق جامع ترمذی میں حضور کا یہ ارشاد ملتا ہے کہ ’’اَنَا مدینۃُ العِلمِ و علیٌّ بابُھا‘‘ اگرچہ امام ترمذیؒ اور چند دیگر محدثین نے اس کی اسناد کو ضعیف بتایا ہے لیکن موضوع کسی نے قرار نہیں دیا. اسلام کے علوم و معارف کا صرف سرچشمہ قرآن مجید ہے. آپؓ نے اس سرچشمہ سے پوری طرح سیرابی حاصل کی. آپؓ نہ صرف حافظ و قاریٔ قرآن تھے بلکہ علومِ قرآنی سے بھی اپ کو خصوصی شغف تھا. بالخصوص آیات کے شان نزول کے علم میں آپ گہری دلچسپی رکھتے تھے. چنانچہ آپؓ ‘کا شمار مفسرین کے اعلیٰ طبقہ میں ہوتا ہے. صحابہ کرامؓ میں سے اس کمال میں حضرت عبداللہ بن عباسؓکے سوا اور کوئی شریک نہیں. قرآن مجید سے مسائل کے استنباط میں آپؓ ‘کو یدِ طولیٰ حاصل تھا. خوارج نے جب تحکیم کے مسئلہ میں فتنہ اٹھایا‘جس کا ذکر میں کر چکا ہوں‘تو آپؓ نے بہت سے حفاظِ قرآن اور علماء کو جمع کر کے خوارج کے چند سربر آوردہ افراد کی موجودگی میں ان سے دریافت فرمایا کہ اگر میاں بیوی میں اختلاف ہو تو اللہ نے حکم بنانے کی اجازت دی ہے کہ نہیں؟ لہٰذا جب امت کے دو گروہوں میں اختلاف ہو جائے تو حکم بنانا جائز ہو گا یا نہیں؟ حفاظ و علماء نے آپؓ ‘کی تائید کی. لیکن خوارج اپنے موقف پر اڑے رہے. خوارج ’’اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ‘‘ سے تحکیم کے خلاف جو استدلال کرتے تھے‘اس کے متعلق آپؓ ‘فرماتے کہ ’’کلمۃُ حقِّ اُریدَ بِھَا البَاطِل‘‘ یعنی اگرچہ بات اپنی جگہ درست ہے لیکن اس سے خوارج کا یہ استدلال و استنباط صریحاً غلط ہے.

حضرت علیؓ نے بچپن ہی سے لکھنے پڑھنے کی تعلیم حاصل کر لی تھی. مشہور ہے کہ آپؓ نے قرآن مجید کو نزولی ترتیب سے بھی مرتب کیا تھا. واللہ اعلم. بعض دوسرے صحابہؓ ‘کی طرح 
آپؓ کا نام بھی کاتبانِ وحی میں شامل ہے. مزید یہ کہ حضور کے جو مکاتب و فرامین لکھے جاتے تھے ‘ان میں سے بعض کو تحریر کرنے کا شرف آپؓ کے حصے میں بھی آیا. حدیبیہ کا صلح نامہ آپؓ ہی نے تحریر کیا تھا.