حضرت علیؓ کے متعلق آپؓ کے دورِ خلافت ہی میں کچھ لوگوں کا خیال تھا اور ایک گروہ نے تو اسے اپنے عقائد کا مستقل جز و بنا رکھا ہے کہ حضور نے آپؓ ‘کو ظاہری علوم کے علاوہ چند باطنی علوم کی تعلیم بھی دی تھی. یہ علوم سینہ بہ سینہ حضرت حسنؓ سے لے کر حضرت حسن عسکریؒ تک پہنچے. اب یہ علوم امام مہدی کے پاس ہیں جو اس گروہ کے عقیدے کے مطابق زندہ ہیں مگر کسی غار میں پوشیدہ ہیں‘قیامت کے قریب وہ اپنے پوشیدہ مسکن سے نکلیں گے اور ان علومِ باطنیہ سے لوگوں کو آگاہ کریں گے. حالانکہ صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ حضرت علیؓ کے شاگردوں نے آپؓ سے پوچھا کہ ’’قرآن کے سوا کچھ اور بھی آپ کے پاس ہے؟ فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جو دانہ کو پھاڑ کر درخت اگاتا ہے‘جو جان کو (جسم کے اندر) پیدا کرتا ہے‘میرے پاس قرآن کے سوا کچھ اور نہیں. لیکن قرآن سمجھنے کی قوت (فہم) کی دولت خدا جس کو چاہے دے‘اس کے علاوہ چند حدیثیں بھی میرے پاس ہیں جو میں بیان کرتا ہوں.‘‘ چنانچہ اس غلط خیال کی تردید خود حضرت علیؓ سے ثابت ہے.