رسول اللہ کی زبان مبارک سے متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خصوصی مناقب بیان ہوئے ہیں. آپ حضرات نے جمعہ کے خطبہ ثانی میں سنا ہو گا‘ہمارے خطیب خلفائے راشدینؓ کے متعلق حضور کے فرمائے ہوئے ان مناقب کو بیان کرتے ہیں کہ ’’اَرْحَمُ اُمَّتِی بِاُمَّتِی اَبُوبَکْر‘‘ (میری اُمت میں میری اُمت کے حق میں سب سے زیادہ رحیم و شفیق ابوبکر ہیں).’’وَاَشَدُّھُم فِی اَمْرِ اللّٰہِ عُمَر‘‘ (اُمت میں اللہ کے احکام کے بارے میں سب سے زیادہ سخت‘سب سے زیادہ شدید عمر ہیں). ’’وَاَکْثَرُھُمْ حَیَاءً عُثْمَان‘‘ (امت میں سب سے زیادہ حیادار عثمان ہیں) ’’وَاَقْضَاھُمْ عَلِّی‘‘ (اور امت میں سب سے بہتر فیصلہ کرنے والے علی ہیں). رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین. چنانچہ حضور مدینہ میں بعض اوقات قضا کی خدمت حضرت علیؓ کے سپرد فرماتے تھے. جب اہلِ یمن نے اسلام قبول کیا تو نبی اکرم نے وہاں کے عہدۂ قضا کے لیے آپؓ کو مقرر فرمایا. حضرت علیؓ نے بارگاہِ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! وہاں نئے نئے مقدمات پیش ہوں گے اور مجھے قضا کا تجربہ اور علم نہیں.

لیکن رسول اکرم کی نگاہِ جوہر شناس آپؓ ‘ کی خفیہ صلاحیتوں کو جانتی تھی‘ لہذا حضور نے ان کو تسلی دی کہ ’’اللہ تعالیٰ تمہارے دل کو ثبات و استقلال بخشے گا.تمہاری زبان کو حق بات کہنے کی سعادت عطا فرمائے گا اور صحیح فیصلے کرنے میں تمہاری نصرت فرمائے گا‘‘. اس تسلی کے علاوہ حضور نے آپؓ ‘کو قضا و فصلِ مقدمات کے لیے ہدایات بھی دیں. مثلاً حضور نے فرمایا: علیؓ جب تم دو آدمیوں کا جھگڑا چکانے لگو تو اپنے فیصلہ کو اُس وقت تک روکے رکھو جب تک دونوں فریقوں کے بیان اور ضروری شہادتوں کو نہ سن لو. اور حقیقت معلوم کرنے کے لیے ان سے خوب جرح نہ کر لو. حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم کی تسلی اور تعلیمات کے بعد پھر مجھے مقدمات کے فیصلوں میں کبھی تذبذب نہیں ہوا. یمن کے قیام کے دوران آپؓ نے بعض عجیب و غریب مقدمات کا فیصلہ اپنی فراست سے فرمایا. ان فیصلوں میں سے بعض کو حجۃ الوداع کے موقع پر حضور کی خدمت میں بطور اپیل پیش کیا گیا. حضور نے حضرت علیؓ کے فیصلے کو سن کر تبسم فرمایا اور ان کو برقرار رکھا. حضرت علیؓ کے فیصلے چونکہ قانونِ شریعت میں نظائر کی حیثیت رکھتے تھے‘اس لیے اہل علم نے ان کو تحریری صورت میں مدون بھی کر لیاتھا. لیکن سبائیوں نے ان میں بھی تحریف کر دی تھی. چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے اس کے ایک حصہ کو اسی دور میں جعلی قرار دے دیا تھا‘البتہ آنجنابؓ کے بعض صحیح فیصلوں سے امام ابو حنیفہؒنے اپنی فقہ میں استنباط کیا ہے.

تمام صحابہ کرامؓ اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت علیؓ کو مقدمات‘ مناقشات‘تنازعات اور خصومات کے فیصلوں اور قضاء کی خصوصی صلاحیت عطا فرمائی ہے. حضرت عمرؓ ‘فرمایا کرتے تھے ’’ہم میں مقدمات کے فیصلے کے لیے سب سے زیادہ موزوں علیؓ ہیں اور قرآن کے سب سے بڑے قاری ابی بن کعبؓ ہیں‘‘. اسی طرح فقیہ الامت حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ‘کا قول ہے کہ تمام صحابہؓ ‘کہا کرتے تھے کہ مدینہ والوں میں سب سے زیادہ صحیح فیصلہ کرنے والے حضرت علیؓ ہیں. بڑے بڑے صحابہؓ یہاں تک کہ حضرت عمرؓ اور حضرت عائشہؓ بھی بعض اوقات حضرت علیؓ ‘کی طرف رجوع کرنا پڑتا تھا. مسند احمد بن حنبلؒ میں ہے کہ کسی نے حضرت عائشہؓ سے دریافت کیا کہ وضو کے بعد کتنے دن تک موزوں پر مسح کیا جا سکتا ہے . انہوں نے فرمایا کہ علیؓ سے معلوم کرو‘کیونکہ وہ سفر میں حضور  کے ساتھ 
رہا کرتے تھے. حضرت علیؓ نے فرمایا کہ مسافر تین دن تین رات تک اور مقیم ایک دن ایک رات تک مسح کر سکتا ہے.
جس زمانہ میں آپؓ کا حضرت معاویہؓ سے اختلاف چل رہا تھا‘اس زمانے میں بھی ایک دفعہ حضرت معاویہؓ نے خط لکھ کر ایک مسئلہ دریافت کیا. آپؓ نے مسکرا کر فرمایا کہ خدا کا شکر ہے کہ ہمارے مخالفین بھی 
’’ تفقہ فی الدین‘‘ میں ہماری طرف رجوع کرتے ہیں اور مسئلہ کا جواب بھجوادیا‘جس کے مطابق حضرت معاویہؓ نے عمل کیا.