رسول اللہ کی یہ متفق علیہ حدیث پہلے گزر چکی: ’’لَیْسَ الشَّدِیدُ بِالصُّرَعَۃِ اِنَّمَا الشَّدِیْدُ الَّذِیْ یَمْلِکُ نَفْسَہُ عِنْدَ الْغَضَبِ‘‘ یعنی ’’قوی (پہلوان) وہ نہیں ہے جو مقابل کو پچھاڑ لے بلکہ (حقیقی) قوی اور پہلوان وہ ہے جو غصہ اور غیظ کی حالت میں اپنے نفس کو قابو میں رکھے‘‘. نبی اکرم کے اس ارشاد گرامی کی کامل تعمیل سیرتِ علی رضی اللہ عنہ میں نظر آتی ہے. آپ کو معلوم ہو گا کہ کسی شخص کی ذاتی توہین و تذلیل کی جو مذموم حرکتیں دنیا میں رائج ہیں‘ان میں دو نہایت گھناؤنی ہیں. ایک یہ کہ کسی کو ماں بہن کی گالی دی جائے اور ایک یہ کہ اس کے منہ پر تھوک دیا جائے.

ان حرکتوں پر کمزور سے کمزور شخص بھی غصہ سے مغلوب ہو کر کانپنے لگتا ہے‘اس کے جسم کا سارا خون اس کے چہرے پر آجاتا ہے‘محسوس ہوتا ہے کہ اگر اس کا بس چلے تو تذلیل کرنے والے کی تکا بوٹی کر دے گا. اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایسے مواقع پر کسی قوی شخص کے جذبات کا عالم کیا ہو گا! آخر الذکر صورت کا ایک واقعہ حضرت علیؓ کے ساتھ بھی پیش آیا. ہوا یہ کہ ایک غزوہ میں آنجنابؓ نے ایک کافر دشمن کو پچھاڑ لیا اور آپؓ چاہتے ہی تھے کہ تلوار سے اس کاسر قلم کر دیں کہ اس نے نیچے لیٹے لیٹے آپؓ کے منہ پر تھوک دیا. آپؓ اس توہین و تذلیل پر برافروختہ ہونے کی بجائے اس کو چھوڑ کر الگ کھڑے ہو گئے. وہ مغلوب بھی حیران و پریشان اٹھ کھڑا ہوا. اس نے آپؓ سے دریافت کیا کہ میں نے تو یہ سمجھ کر کہ مجھے تو قتل ہونا ہی ہونا ہے یہ انتہائی مذموم حرکت کی تھی لیکن آپؓ نے مجھے چھوڑ دیا؟ آپؓ نے اسے جواب دیا کہ میری تم سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی. میں فی سبیل اللہ تم سے لڑ رہا تھا اور اسی لیے تمہیں قتل کرنا چاہتا تھا لیکن جب تم نے میرے منہ پر تھوکا تو اس کے ردِّعمل میں تمہارے خلاف میرے دل میں شدید غیظ و غضب پیدا ہوا . ساتھ ہی مجھے اللہ کا خوف آیا کہ اگر اس موقع پر میں تمہیں قتل کروں گا تو ہو سکتا ہے کہ تمہارا یہ قتل اللہ کے نزدیک اس کی راہ میں قتل شمار نہ ہو بلکہ میرے ذاتی غصہ کے انتقام میں شمار ہو‘اس لیے میں نے تم کو قتل کرنے سے ہاتھ روک لیا. یہ ہے تحمل‘خشیتِ الٰہی اور حقیقی شجاعت کا عملی نمونہ جو ہمیں حضرت علیؓ کی شخصیت میں نظر آتا ہے.