غلام احمد پرویز صاحب نے حضرت عمرؓ ‘کی سیرت کا عنوان ’’شاہکارِ رسالت‘‘ رکھا ہے لیکن میرے رائے میں یہ لفظ حضرت علیؓ کی شخصیت کے لیے زیادہ موزوں ہے کیونکہ بالکل ابتدائی عمر سے ہی آپؓ ‘کو حضور کی تربیت میں پرورش پانے کا موقع ملا. پھر ایمان لانے کے بعد سے ہجرت تک اور ہجرت کے بعد حضرت فاطمہؓ سے نکاح تک آپؓ ‘حضور کے گھر میں ان کے ساتھ رہے. 

مکی دور میں حضرت علیؓ سے متعلق صرف چند واقعات روایات میں آتے ہیں‘کیونکہ اُس وقت آپؓ کی عمر بہت چھوٹی تھی لیکن نوعیت کے اعتبار سے یہ واقعات کافی اہم ہیں. پہلا واقعہ تیرہ برس کی عمر میں پیش آیا‘ جب حضور نے حکمِ خداوندی کی تعمیل میں بنو ہاشم کے کھانے کا اہتمام کیا تاکہ انہیں اسلام کی دعوت دیں. اس کے جواب میں بنو ہاشم میں سے کھڑا ہوا تو کون! ایک تیرہ سالہ بچہ علیؓ بن ابی طالب. اس موقع پر ان کی زبان سے جو جملے نکلے وہ تاریخی جملے ہیں. ذرا چشمِ تصور سے دیکھئے کہ رسول اللہ اپنے خاندان کو اللہ کی طرف بلا رہے ہیں اور حاضرین میں سے کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی. کھڑا ہوتا ہے تو تیرہ برس کا ایک بچہ اور کہتا ہے کہ ’’اگرچہ میں عمر میں سب سے چھوٹا ہوں‘اگرچہ میری آنکھیں دکھتی ہیں‘اگرچہ میری ٹانگیں پتلی ہیں لیکن میں آپؐ ‘کا ساتھ دوں گا‘‘. اور تمام لوگ قہقہہ لگا کر دلوں میں شاید یہ کہتے ہوئے چلے گئے کہ یہ ؐ ہیں جو دنیا کی تاریخ کا رخ بدلنے کے لیے کھڑے ہوئے ہیں اور یہ تیرہ سالہ بچہ ہے جو انؐ ‘کی مدد اور اعانت کے لیے خود کوپیش کر رہا ہے.

دوسرا اہم واقعہ یہ ہے کہ ہجرت کی رات حضور نے لوگوں کی وہ امانتیں جو آپؐ کے پاس تھیں‘حضرت علیؓ کے سپرد کیں اور انؓ ‘ کو اپنی جگہ اپنے بستر پر لیٹنے کی ہدایت فرما کر ہجرت کے ارادے سے روانہ ہوئے. اُس وقت حضرت علیؓ ‘کی عمر بائیس تئیس برس کی ہو گی. رات بھر باہر دشمنانِ خدا اور رسول  کا محاصرہ رہا. اس خطرہ کی حالت میں بھی یہ نوجوان نہایت سکون و
اطمینان ان کے ساتھ محوِ خواب رہا. یہ بھی آپؓ کی خفیہ شجاعت کا مظہر ہے. حضرت علیؓ کی شخصیت کے اصل جوہر مدنی دور میں ظاہر ہوئے‘جن کا ایک اجمالی نقشہ میں آپ حضرات کے سامنے رکھ چکا ہوں. مکی اور مدنی دور میں آپؓ ‘کی عمر کے معاملہ کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے.

مکی دَور میں جو حضرات حضور کے ہم عمر تھے وہ اوّل روز سے آپؐ کے دست و بازو بنے ہوئے تھے. حضرت ابوبکرؓ ایمان لاتے ہی دعوت و تبلیغ میں لگ گئے. عشرئہ مبشرہ میں سے چھ حضرات حضرت ابوبکر ؓ کی دعوت و تبلیغ کے نتیجے میں رسول اللہ کے دامن سے آکر وابستہ ہوئے. انہی میں عثمان غنی‘طلحہ‘زبیر‘عبدالرحمن بن عوف‘ابوعبیدہ بن الجراح اور سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین شامل ہیں. یہ سب لوگ کون ہیں. یہ قریش کے چوٹی کے گھرانوں کے موتی اور ہیرے ہیں. یہ مکی دور کی وہ سعید روحیں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے عقلِ سلیم اور نورِ فطرت عطا فرمایا تھا جو نور وحی سے جگمگا گیا‘اور انہوں نے دعوتِ ایمان پر لبیک کہا اور راہ حق میں نہایت مہیب مظالم برداشت کئے.