دیگر صحابہؓ کے ساتھ حضرت علیؓ کے تعلقات کے ذکر سے پہلے مناسب ہو گا کہ سیرت کا ایک اہم واقعہ ذہن میں تازہ کر لیا جائے. غزوۂ تبوک کے موقع پر حضور نے حضرت علیؓ ‘ کو اپنے نائب کی حیثیت سے مدینہ میں رہنے کا حکم دیا مگر یہ بات حضرت علیؓ کے مزاج سے بعید تھی کہ وہ شرکت ِجہاد سے محرومی کو گوارا کر لیں. پھر کچھ منافقین نے طعنہ زنی بھی کی. چنانچہ آپؓ نے رنجیدہ ہو کر شکوہ کے انداز میں حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ لوگ اللہ کی راہ میں جہادکے لیے نکلیں‘دادِ شجاعت دیں اور میں عورتوں‘بوڑھوں اور مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے مدینہ میں رہ جاؤں! حضرت سعدؓ بن ابی وقاص روایت کرتے ہیں کہ حضرت علیؓ کی اس شکوہ آمیز التجا پر حضور نے فرمایا:

اَلَا تَرْضیٰ اَنْ تَکُوْنَ مِنِّی بِمَنْزِلَۃِھَارُوْنَ مِنْ مُوْسیٰ اِلَّا اَنَّہُ لَیْسَ نَبِیٌّ بَعْدِیْ (۱

’’اے علی! میرے ساتھ تمہارا وہی مقام‘مرتبہ اور تعلق ہے جو ہارونؑ کا موسیٰ ؑ کے ساتھ تھا‘سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے.‘‘ 
(۱) صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب غزوۃ تبوك و ھی غزوۃ العسرۃ-و مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ،باب من فضائل علی ابن ابی طالب. یعنی جس طرح حضرت موسیٰ ؑ کی عدم موجودگی میں ان کی نیابت حضرت ہارونؑ کرتے تھے‘اسی طرح میرے نائب کی حیثیت سے تم مدینہ میں رہو. البتہ چونکہ حضرت ہارونؑ نبی بھی تھے لہذا حضور نے ساتھ ہی یہ وضاحت بھی فرما دی کہ نبوت کا دروازہ تو اب ہمیشہ کے لیے بند ہو چکا ہے.