تاریخ شاہد ہے کہ حضرت عمرؓ جب بیت المقدس کی فتح کے موقع پر یروشلم تشریف لے گئے تو مدینہ میں اپنا نائب حضرت علیؓ ہی کو بنا کر گئے. ذرا سوچئے تو سہی‘کیا کوئی حکمران ایک طویل سفر پر جاتے ہوئے اپنی جگہ کسی ایسے شخص کو بٹھائے گا جس پر اسے اعتماد نہ ہو. مدینہ سے بیت المقدس کے فاصلے اور اُس دور میں اونٹ کے سفر کی رفتار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت عمرؓ ‘کی مدینہ سے غیر حاضری کوئی چند روز کی بات نہ تھی. اور پھر سفر کی صورت بھی یہ تھی کہ ایک منزل تک حضرت عمرؓ اونٹ پر سوار ہوتے تو غلام پیدل چلتا اور اگلی منزل وہ غلام سوار ہوتا تو خلیفۃ المسلین عمرؓ بن الخطاب اونٹ کی نکیل تھام کر پیدل چلتے تھے. گویا پیدل چلنے کی رفتار سے سفر طے ہو رہا تھا. دوسری مرتبہ حضرت عمرؓ نے اُس وقت حضرت علیؓ ‘کو اپنا نائب بنایا‘ جب وہ اپنے دورِ خلافت میں حج کے لیے تشریف لے گئے. میں سمجھتا ہوں کہ حضرت عمرؓ نے اُسوۂ رسول پر عمل کرتے ہوئے حضرت علیؓ ‘کو اپنا نائب مقرر فرمایا.

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں جس تیزی کے ساتھ فتوحات کا دائرہ وسیع ہوا ہے‘ ذرا اس کا اندازہ تو کیجئے! پورے پورے ملک یکے بعد دیگرے اقلیمِ اسلامی میں شامل ہو رہے تھے‘بڑی بڑی آبادیاں اپنے تمام وسائل و ذرائع اور وسیع وعریض اراضی سمیت اسلامی حکومت کے زیر نگیں آ رہی تھیں. اگر ان کا صحیح انتظام اور بندوبست نہ ہوتا تو بہت بڑی ہلاکت اور تباہی رونما ہوتی. میں نے لفظ ہلاکت یہاں جان بوجھ کر استعمال کیا ہے. کیونکہ حضرت عمرؓ کے یہ الفاظ تاریخ کے صفحات پر ثبت ہیں کہ 
لَولَا عَلِیٌّ لَھَلَکَ عُمَر ’’اگر علیؓ نہ ہوتے تو عمرؓ ہلاک ہو جاتا‘‘. فاروق اعظمؓ نے یہ کیوں کہا! اس لیے کہ آپؓ پر خلیفۃ المسلمین کی حیثیت سے اور بہت سی دوسری ذمہ داریاں تھیں‘خاص طور پر فوجوں کا انتظام و انصرام‘محاذوں سے آنے والی اطلاعات کی روشنی میں مزید فوجوں کی کمک اور سامانِ رسد کی فراہمی اور ترسیل کے انتظامات‘پھر وقتاً فوقتاً پیدا ہونے والے بحرانوں پر قابو پانے کی تدابیر پر غور و فکر اور ان کو روبعمل لانے کے انتظامات‘ان تمام امور کی انجام دہی میں آپؓ ‘ مصروف منہمک رہتے تھے. لہذا ریاست اسلامی کے داخلی انتظام کی طرف توجہ دینے کا آپؓ ‘کو مناسب وقت نہیں ملتا تھا‘آپؓ نے یہ سارا کام حضرت علیؓ کے ذمہ کر رکھا تھا. گویا حضرت علیؓ ‘ مشیر خاص اور چیف سیکرٹری تھے حضرت عمرؓ کے .خلافت ِفاروقی میں جتنے بھی حکومت کے انتظامی محکمے قائم ہوئے‘ ان میں سے اکثر حضرت علیؓ ‘کی فہم و فراست کے رہینِ منت ہیں.