حضرت علیؓ کی نظر میں حضرت عمرؓ کا مقام


سر زمینِ عراق پر پیش قدمی کاآغاز دور صدیقی میں ہو گیا تھا. حضرت عمرؓ نے مسندِ خلافت پر رونق افراز ہونے کے بعد عراق کی مہم کی تکمیل کو اوّلین کاموں کی فہرست میں شامل کیا اور اس محاذ پر تازہ فوج روانہ کی. لیکن ایک موقع پر مسلمانوں کے لشکر کو سخت ہزیمت ہوئی اور نو ہزار کی فوج میں سے چھ ہزار مجاہدین اس معرکہ میں شہید ہو گئے. حضرت عمرؓ ‘کو جب اس شکست کی خبر ملی تو ان کو بڑا صدمہ اور رنج ہوا. انہوں نے فیصلہ کیا کہ تازہ کمک لے کر وہ خود محاذِ جنگ پر جائیں گے. لیکن حضرت علیؓ نے ان ؓ ‘ کو روکا اور یہ فرمایا کہ چکی اس وقت تک پیستی ہے جب تک اس کا دُھرا (کلی) اپنی جگہ مضبوطی سے قائم رہے. اِس وقت آپؓ ‘کا مقام چکی کے دُھرے کا ہے. امتِ مسلمہ کی یہ چکی اس وقت تک چلے گی‘ جب تک آپؓ اپنے مقام پر قائم رہیں گے. حضرت عمرؓ نے حضرت علیؓ کے مشورے کو قبول کیا اور خود محاذِ جنگ پر جانے کی بجائے حضرت علیؓ و دیگر اصحاب شوریٰ کے مشورے سے حضرت سعدؓ بن ابی وقاص (یکے از عشرۂ مبشرہؓ ) کو افواج کا سپہ سالار بنا کر نئی فوجوں کے ساتھ ایران کی سرحدوں پر بھیجا. اس واقعہ سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ان حضرات میں کتنا قریبی قلبی تعلق تھا اور حضرت علیؓ ‘کی نگاہِ دور رس میں حضرت عمرؓ ‘کا کیا مقام تھا.