البتہ ہم یہ مانتے ہیں کہ حضرت علیؓ ‘کو حضرت ابوبکرؓ سے ان کے دورِ خلافت کے ابتدائی ایام میں کچھ شکایت رہی اور یہ شکایت بے بنیاد نہ تھی. ایک شکایت یہ تھی کہ خلافت کا فیصلہ کرنے میں انہیں شریک نہیں کیا گیا. لیکن اس فیصلہ میں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے پہلے سے کسی سوچے ہوئے منصوبہ کا عمل دخل نہیں تھا. امرِ واقعہ یہ ہے کہ حضور کی وفات کی خبر مشہور ہوتے ہی انصارؓ‘کی کافی بڑی تعداد نے ثقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہو کر خلافت کی بحث چھیڑ دی اور حضرت سعد بن عبادہؓ ‘کو خلیفہ بنانے کی تجویز پیش کر دی. چند مہاجرین بھی وہاں پہنچ گئے تھے. چنانچہ بحث و تمحیص شروع ہو گئی.

آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس موقع پر اگر ایک مرتبہ غلط فیصلہ ہو جاتا تو اس کوصحیح کرانے کے لیے خون کی ندیاں بہہ جاتیں مگر اس کو صحیح کرنا ممکن نہ ہوتا. اس نازک مرحلے پر جیسے ہی یہ خبر ملی‘یہ دونوں حضراتؓ وہاں پہنچ گئے. حضرت ابوبکرؓ نے جب نبی اکرم کا قول مبارک سنایا کہ ’’اَلائِمّۃُ مِن قُرَیش‘‘ تو سارا مجمع دم بخود رہ گیا. پھر حضرت ابوبکرؓ نے خلافت کے لیے حضرت عمرؓ اور حضرت ابوعبیدہؓ بن الجراح کا نام تجویز کیا کہ ان دونوں میں سے کسی کو خلیفہ بنا لو‘لیکن حضرت عمرؓ زبان سے کچھ کہے بغیر آگے بڑھے اور ابوبکرؓ ‘کا ہاتھ کھینچ کر ان سے خلافت کی بیعت کر لی. حضرت عمرؓ کے بیعت کرنےکے بعد انصار اور مہاجرین جو وہاں موجود تھے‘حضرت ابوبکرؓ ‘کی بیعت کے لیے ٹوٹ پڑے. اس طرح حضرت عمرؓ نے اپنی مؤمنانہ فراست کو کام میں لاکراُمت کو بڑے فتنے سے بچا لیا. مگر حضرت علیؓ کے سامنے معاملے کی پوری تفصیلات نہیں تھیں. چنانچہ کچھ عرصہ بعد جب ان دونوں حضرات کی تنہائی میں گفتگو ہوئی اور حضرت ابوبکرؓ نے پوری صورت حال حضرت علیؓ کے سامنے رکھی تو ان کا دل صاف ہو گیا. طبقات ابن سعد میں لکھا ہے کہ اس کے بعد حضرت (۱)السنن الکبریٰ للبیھقی:۱۴۳/۸ و ۱۴۴. وصحیح الجامع الصغیر للالبانی، ح:۲۷۵۷ و ۲۷۵۸. راوی:انس بن مالکؓ . ابوبکرؓ نے ایک دین ظہر کی نماز کے بعد حضرت علیؓ ‘کی طرف سے عذر خواہی کی اور حضرت علیؓ نے شاندار الفاظ میں حضرت ابوبکرؓ کے فضل و شرف کا اعتراف کیا اور انؓ کے ہاتھ پر بیعت کر لی. پھر حضرت علیؓ پورے دورِ صدیقی میں ابوبکرؓ کے دست و بازو بنے رہے.

حضرت ابوبکرؓ اور حضرت فاطمہؓ میں بھی کچھ شکر رنجی ہو گئی تھی. حضرت فاطمہؓ اس بات کی قائل تھیں کہ وراثت میں مجھے باغ فدک ملنا چاہیے. حضرت ابوبکرؓ کے سامنے حضور کا یہ قول تھا کہ
’’لَانُورَثُ‘مَاتَرَکْنَا صَدَقَۃٌ‘‘ (۱’’ہم کسی کو وارث نہیں بناتے‘جو چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے‘‘. لہذا انہوں نے دختر رسول کی یہ خواہش پوری کرنے سے معذرت کر لی‘جس پر حضرت فاطمہؓ رنجیدہ خاطر ہو گئیں. طبقات ابن سعد میں ہے حضرت فاطمہؓ ‘کی وفات سے قبل حضرت ابوبکرؓ نے انہیں بھی راضی کر لیا تھا. یہ حقائق ہیں. انسانوں میں اس قسم کی باہمی رنجش کا پیدا ہو جانا کوئی بعیدازقیاس نہیں. سورۂ حجر (آیت ۴۷) میں ارشادِ ربانی ہے کہ ’’ہم اہل ایمان (کو جب جنت میں داخل کریں گے تو ان) کے دلوں میں جو رنجشیں ہوں گی انہیں نکال دیں گے. وہ آپس میں بھائی بھائی بن کر آمنے سامنے تختوں پر بیٹھے ہوں گے‘‘. حضرت علیؓ کا یہ قول ہماری تفاسیر میں موجود ہے کہ یہ آیت میرے اور معاویہ ( رضی اللہ عنہ) کے بارے میں نازل ہوئی ہے‘ ہمارے دلوں میں ایک دوسرے کی طرف سے میل آ گیا ہے‘ جنت میں داخل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ اس میل اور رنجش کو دور کر دیں گے. صحابہ کرامؓ ‘بھی یقینا انسان تھے. لیکن ان کی طبیعت اور ان کی اعلیٰ سیرت و کردار کا جو نقشہ ہمارے سامنے آتا ہے اس کے پیش نظر ان کے مابین کسی وقتی رنجش یا کسی غلط فہمی کے پیدا ہونے کو ہم تسلیم کرتے ہیں. لیکن کوئی مستقل بغض‘کوئی کدورت‘ایک دوسرے سے کوئی مستقل دشمنی و عداوت کا ہم کوئی تصور تک نہیں کر سکتے. معاذ اللہ‘ثم معاذ اللہ!