مولانا معین الدین ندوی مرحوم نے اپنی کتاب ’’خلفائے راشدین‘‘ میں حضرت معاویہؓ کے دربارِ خلافت کا ایک عجیب واقعہ بیان کیا ہے. وہ لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ دربار میں حضرت معاویہؓ نے ضراراسدی سے کہا جو حضرت علیؓ کے حامیوں میں رہے تھے کہ حضرت علیؓ کے اوصاف بیان کرو. پہلے تو ضرار نے معذرت کی لیکن حضرت معاویہؓ کے اصرار پر وہ بولے کہ اگر 
(۱) صحیح البخاری،کتاب فرض الخمس.وصحیح مسلم،کتاب الجہاد والسیر،باب قول النبی لانورث، ما ترکنا فھو صدقۃ. اصرار ہے تو سنئے:

’’وہ (حضرت علیؓ ) بلند حوصلہ اور قوی تھے‘فیصلہ کن بات کہتے تھے‘عادلانہ فیصلے کرتے تھے. ان ؓ کے ہر جانب علم کا چشمہ پھوٹتا تھا. ان کے تمام اطراف سے حکمت ٹپکتی تھی. دنیاکی دلفریبی اور شادابی سے وحشت کرتے اور رات کی وحشت ناکی سے انس رکھتے تھے. بڑے رونے والے اور بہت غور و فکر کرنے والے تھے. معمولی لباس اور موٹا جھوٹا کھانا پسند تھا. ہم میں بالکل ہماری طرح رہتے تھے. جب ہم ان سے سوال کرتے تھے تو وہ ہمارا جواب دیتے تھے. اور جب ہم ان سے انتظار کی درخواست کرتے تو وہ ہمارا انتظار کرتے تھے. اس کے باوجود کہ وہ اپنی خوش خلقی سے ہم کو اپنے قریب کر لیتے تھے اور خود ہم سے قریب ہو جاتے تھے‘خدا کی قسم ان کی ہیبت سے ہم ان سے گفتگو نہیں کر سکتے تھے. وہ اہلِ دین کی عزت کرتے تھے. غریبوں کو مقرب بناتے تھے. قوی کو اس کے باطن میں حرص و طمع کا موقع نہیں دیتے تھے. ان کے انصاف سے ضعیف نا امید نہیں ہوتا تھا. میں شہادت دیتا ہوں کہ میں نے ان کو بعض معرکوں میں دیکھا کہ رات گزر چکی ہے‘ستارے ڈوب چکے ہیں اور وہ اپنی داڑھی پکڑے ہوئے ایسے مضطرب ہیں جیسے مارگزیدہ مضطرب ہوتا ہے اور اس حالت میں وہ غمزدہ آدمی کی طرح رو رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے دنیا مجھ کو فریب نہ دے‘دوسرے کو دے‘تو مجھ سے چھیڑ چھاڑ کرتی ہے یا میری مشتاق ہوتی ہے‘افسوس افسوس میں نے تجھ کو تین طلاقیں دے دی ہیں‘جس سے رجعت نہیں. تیری عمر کم‘اور تیرا مقصد حقیر ہے‘آہ زادِ راہ کم اور سفر دور دراز کا ہے. راستہ وحشت خیز ہے‘‘.

یہ سن کر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ رو پڑے اور فرمایا ’’اللہ تعالیٰ ابوالحسن (یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ) پر رحم کرے. خدا کی قسم وہ ایسے ہی تھے‘‘.