بہرحال بنو اُمیہ کی حکومت بھی یقینا ظالم تھی. حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہماکے ساتھ میدانِ کربلا میں جو کچھ ہوا اس سے تو بچہ بچہ واقف ہے‘ کیونکہ اس کا تذکرہ تو اہتمام کے ساتھ بڑے پیمانے پر ہوتا ہے. اسی جیسا سلوک حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہماکے ساتھ حرمِ مکہ میں ہوا‘ ان کو بے دردی سے ذبح کیا گیا اور ان کی لاش کو تین دن تک بے گور وکفن سولی کے تختے پر لٹکا رکھا گیا. حرمِ مکی کی حرمت کو بٹہ لگا یا گیا.اسی دور میں واقعۂ حرہ بھی پیش آیا‘ جب تین دن تک مدینہ منورہ میں لوٹ مار کی گئی‘ خواتین کی بے حرمتی کی گئی اور حجاج بن یوسف کے ہاتھوں سینکڑوں تابعین شہید کیے گئے‘ مگر میرے نزدیک اس سے بڑا ظلم یہ تھا کہ محمد بن قاسم رحمہ اللہ علیہ کو سندھ سے واپس بلا کر شہید کر دیا گیا. وہ نوجوان تھا‘ لیکن اس قدر پارسا تھا کہ ہندوؤں نے اپنے معیار و عقیدہ کے مطابق اسے اوتار قرار دے دیا اور اس کی مورتیاں بنا کر پوجا شروع کر دی. ایسے متقی اور عادل حکمران کو اگر موقع مل جاتا تو پورا ہندوستان فتح ہو جاتا‘ لیکن اس سے ملوکیت کو بڑا خطرہ لاحق ہو جاتا. ملوکیت میں تو سوچنے کا انداز یہی ہوتا ہے کہ کسی شخص کا ہر دل عزیز ہونا تخت ِشاہی کے لیے خطرہ ہے. محمد بن قاسم کا یہی جرم تھا کہ وہ کشمکش اقتدار میں برسراقتدار آنے والے بادشاہ کے مخالف گروپ میں شمار ہوتا تھا. جو کچھ محمدبن قاسم ؒ کے ساتھ ہوا بعینہٖ موسیٰ بن نصیر ؒ کے ساتھ ہوا. انہوں نے شمالی افریقہ کا اکثر و بیشتر حصہ فتح کیا تھا. طارق بن زیادؒ موسیٰ بن نصیر ؒ کے ادنیٰ کمانڈر تھے. موسیٰ بن نصیر کو بھی ذلیل کیا گیا‘ دھوپ میں کھڑا کیا گیا‘ بہت بوڑھے تھے‘ بے ہوش ہو کر گر گئے. دونوں کو بادشاہت کے لیے خطرہ سمجھاگیا.