اب چند باتیں بیسویں صدی کے حوالے سے بھی عرض کرنی ہیں. تاریخ انسانی میں بیسویں صدی سے زیادہ گھمبیر دور کوئی نہیں گزرا. اس صدی میں دو عظیم مملکتوں کا ایسا خاتمہ ہوا کہ نام و نشان تک مٹ گیا. صدی کے آغاز میں‘ سلطنت ِعثمانیہ جو تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی نسیاً منسیاً ہو گئی‘ جب کہ اس صدی کے اختتام پر U.S.S.R جیسی سپر طاقت ؏ ’’خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا!‘‘ کی تصویر بن گئی. کیا عجب کہ اسی صدی میں کوئی تیسری طاقت بھی اسی طرح پگھل کر رہ جائے! جاننے والے جانتے ہیں کہ امریکہ کا یہ انجام دور نہیں ہے. امریکی معیشت سخت بحران کا شکار ہے.
اس کی معیشت کا اصل lever یہود کے ہاتھ میں ہے. یہودی جب چاہیں گے‘ ایک جنبش میں سب کچھ ختم کر دیں گے. میں تو ان حقائق کو دو اور دو چار کی طرح جانتا ہوں. وہ وقت دور نہیں ہے جب یہودمسجد اقصیٰ کو منہدم کر کے اس کی جگہ ہیکل سلیمانی تعمیر کریں گے. مسلمان ممالک میں سے ان کے راستے میں کوئی مزاحم نہیں ہے. اگر مزاحم ہو گا تو امریکہ ہی ہو گا. لہٰذا وہ پہلے اس کا خاتمہ کریں گے . جو لوگ مغرب کے حالات کا مطالعہ صیہونی تحریک کے عزائم کے پس منظر میں کرتے ہیں وہ یقین کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ امریکہ کا یہ انجام دور نہیں ہے.
بیسویں صدی عیسوی میں ہی دو عظیم جنگیں ہوئی ہیں‘ جن میں کروڑوں انسان قتل ہوئے. کیا تیسری جنگ نہیں ہو سکتی؟ نبی اکرمﷺ نے احادیث مبارکہ میں الملحمۃ العظمیٰ کی خبر دی ہے‘ اسے جنگ عظیم نہیں جنگ اعظم کہیں گے. اس لیے کہ عظمیٰ اعظم کی مؤنث ہے. حالات تیزی سے اس طرف جا رہے ہیں. دراصل یہ تیسری صلیبی جنگ (۹) ہوگی. احادیث مبارکہ کے علاوہ اس کا تذکرہ بائبل میں بھی موجود ہے.