اگر اس صدی کے آغاز میں خلافت ِعثمانیہ کا خاتمہ ہوا تو کیا اس صدی کے اختتام پر احیائے نظامِ خلافت نہیں ہو سکتا؟ چنانچہ ہم بقولِ شاعریہ منظر دیکھ لیں کہ: ؎ 

جہاں میں اہل ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے‘ اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے! 
یہ نری شاعری نہیں‘ بلکہ تاریخی حقائق ہیں. جب اندلس (اسپین) میں مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکمرانی کا سورج غروب ہو رہا تھا تو اسی وقت مشرق میں اسلام کا سورج طلوع ہو رہا تھا.

اسلام کو تو قیامت تک رہنا ہے. حضور کی حدیث مبارکہ ہے کہ 
اَنَا آخِرُ الْاَنْـبِیَاءِ وَاَنْتُمْ آخِرُ الْاُمَمِ (ابن ماجہ) ’’میں آخری رسول ہوں او رتم آخری امت ہو‘‘. یہ اُمت کسی ایک نسل پر مبنی نہیں ہے. اللہ تعالیٰ نے عربوں کو معزول کیا تو اپنے دین کا پرچم ترکوں کے ہاتھوں میں تھما دیا. اب ترک اگر معزول ہو گئے ہیں تو کیا عجب یہ پرچم اسلام ہندیوں کے ہاتھوں میں آنے والا ہو‘ جیسا کہ علامہ اقبال نے کہا ہے: ؎ 

عطا مؤمن کو پھر درگاہِ حق سے ہونے والا ہے
شکوہِ ترکمانی‘ ذہن ہندی‘ نطق اعرابی!

یہ منظر تاریخ انسانی پہلے بھی دیکھ چکی ہے ؎ 

ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے!

اور ؎ 

اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

کوئی بعید نہیں کہ آفتابِ خلافت جو اس صدی کے آغاز میں غروب ہوا وہ اس کے اختتام پر طلوع ہو جائے!