انتخابات کے ذریعے اولی الامر کا تقرر

اولی الامر کے تقرر کے لیے انتخابات کا طریقہ بھی اختیار کیا جا سکتا ہے‘ مگر الیکشن کے نظام کو اسلامی ریاست میں کچھ حدود و قیود کا پابند کرنا ہو گا. تاہم روحِ عصر کا تقاضا ہے کہ انتخابات زیادہ سے زیادہbroad-based ہونا چاہئیں. زیادہ سے زیادہ لوگوں (شہریوں) کی رائے کا اس میں عمل دخل ہو. اس ضمن میں بھی سید الطائفہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں. انہوں نے فرمایا ہے کہ ’’اَلْمُسْلِمُ کُفْوٌ لِکُلِّ مُسْلِمٍ‘‘ یعنی ’’قانونی و دستوری حقوق کے اعتبار سے تمام مسلمان برابر ہیں.‘‘ اسلامی ریاست میں ایسا نہیں ہو گا کہ ایک مسلمان متقی ہے‘ لہذا اس کے قانونی و دستوری حقوق کچھ زیادہ تسلیم کیے جائیں اور ایک فاسق و فاجر مسلمان کے حقوق کچھ کم ہوں. ایک اسلامی ریاست میں تمام مسلمانوں کے شہری حقوق یکساں اور برابر ہیں‘ البتہ ذمہ د اریاں سپرد کرنے میں شہریوں کے علم و عمل کے لحاظ سے ان کے مابین امتیاز کیا جاتا ہے اور کیا جانا چاہیے. گویا اسلامی ریاست میں ووٹ دینے کا حق تمام مسلمانوں کو حاصل ہو گا. یہ بات اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ ہونے کے ساتھ ساتھ روحِ عصر کا تقاضا بھی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو نظامِ حکومت میں اپنی شمولیت کا احساس ہو.