اب ہم ان اصولی باتوں کا عملی زندگی پر انطباق کرتے ہیں. آپ کا اپنا سرمایہ ہے اور اپنی محنت بھی ہے تو یہ بالکل جائز ہے. اگر کسی کے پاس سرمایہ تھوڑا ہے تو وہ چھابڑی لے کر چلے گا‘ اگر زیادہ ہو گیا تو ریڑھی بنائے گا‘ اور گنجائش ہوئی تو کھوکھا لگا لے گا. اسی طرح درجہ بدرجہ بڑھتا چلا جائے گا. اس ضمن میں قرآن حکیم نے صرف ایک قدغن لگائی ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمۡوَالَکُمۡ بَیۡنَکُمۡ بِالۡبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنۡ تَکُوۡنَ تِجَارَۃً عَنۡ تَرَاضٍ مِّنۡکُمۡ ۟ (النساء :۲۹)
’’اے اہل ایمان‘ اپنے مال آپس میں باطل طریقے پر ہڑپ نہ کرو‘ سوائے اس کے کہ تجارت ہو تمہاری باہمی رضامندی سے.‘‘
یعنی لین دین جو ہو باہمی رضا مندی سے ہو. اگر آپ کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھائیں یا دھوکہ اور فریب سے کسی کا مال ہتھیا لیں تو آپ اخلاقی (اور قانونی) جرم کے مرتکب سمجھے جائیں گے.
اسی طرح ایک سے زائد لوگ مل کر سرمایہ جمع کریں اور خود مل کر محنت کریں‘ اس کا نام شراکت ہے. یہ بھی بالکل جائز ہے‘ بلکہ پسندیدہ اور مطلوب ہے. اس میں بھی ایک شرط عائد کی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ محدود (limited) ذمہ داری کا تصور نہ ہو. یہ تصور حرام ہے. دنیا میں تمام اسکینڈلز اسی limited liability کی بنیاد پر وجود میں آتے ہیں. ہوتا یہ ہے کہ آپ نے اپنے سرمائے کو نکال لیا‘ اپنےassets بنا لیے اور پھر کمپنی کو دیوالیہ قرار دے دیا. اب و ہ روتے پھریں جن کو ادائیگیاں کرنا آپ کے ذمہ تھا. آپ کی ذاتی جائیداد سے وہ اپنا قرض وصول نہیں کر سکتے. شراکت کے نظام میں مکمل ذمہ داری (total liability) ہونی چاہیے. ہمارے ہاں پوری صنعت کا یہی معاملہ ہے.
اکثر ایسے ہوتا ہے کہ تھوڑا سا سرمایہ اپنا لگایا اور بینک سے بہت بڑا قرض صنعت کے نام پر لے لیا. اس قرض ہی سے اپنا سرمایہ نکال لیا‘ اور بہت کچھ لوٹ کھسوٹ کر شیک ہینڈ ڈیل کا طریقہ اپنا لیا. اس طرح سارا تاوان بینک پر آ جاتا ہے. اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ بینک کس کا ہے! ظاہر ہے کہ بینک میں لوگوں کی ہی دولت جمع ہوتی ہے. یہ سارے سرمایہ دارانہ ہتھکنڈے ہیں جو دنیا میں ایجاد ہو چکے ہیں. اس کے برعکس شراکت کا تصور یہ ہے کہ آپ کے کاروبار میں کوئی شریک ہوتا ہے. اب اگر کوئی گڑ بڑ ہوئی ہے تو آپ کو ذمہ داری قبول کرنی ہو گی. گویا آپ کو اس کا تاوان ادا کرنا ہو گا.
تیسری شکل یہ ہے کہ سرمایہ کسی اور کا ہے اور کام کرنے والا کوئی دوسرا شخص ہے. اس شکل کو بھی شریعت نے جائز قرار دیا ہے. اس کو مضاربت کہتے ہیں. اس پر یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ یہاں بھی سرمایہ دار محض اپنے سرمائے سے نفع حاصل کرتا ہے. ظاہر ہے اس کی عملی صورت یہی ہے کہ سرمایہ میرا ہے اور محنت آپ کر رہے ہیں. گویا مجھے نفع بغیر محنت کے محض سرمائے کی بنیاد پر ہو رہا ہے! لیکن یہاں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ اصل تحفظ محنت کو حاصل ہے‘ سرمائے کو نہیں. اگر نقصان ہوتا ہے تو مکمل طور پر وہ شخص برداشت کرے گا جس نے سرمایہ لگایا ہے. اس تصور سے سرمایہ دارانہ ذہنیت کی جڑیں کٹ جاتی ہیں. یہی وجہ ہے کہ کوئی سرمایہ دار یہ کام کرنے پر تیار نہیں ہوتا. بہرحال مضاربت میں اگر نفع ہوتا ہے تو سرمایہ لگانے والا اور محنت کرنے والا برابر کے شریک ہیں.لیکن اس صورت سے آگے بڑھ کر محض سرمائے کی بنیاد پرمعین نفع بغیر کسی نقصان کے حاصل کرنا شریعت میں اس شدت سے حرام ہے کہ اس سے زیادہ شدت سے کوئی اور چیز حرام نہیں ہے. حتیٰ کہ اس حرام کا ارتکاب کرنے کے سلسلہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
…فَاۡذَنُوۡا بِحَرۡبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ۚ (البقرہ: ۲۷۹)
’’تو اس روش پر اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ سمجھو!‘‘
آپ حیران ہوں گے کہ کسی اور گناہ پر اعلانِ جنگ نہیں کیا گیا!! اگر اعلانِ جنگ آیا ہے تو وہ سود پر آیا ہے. مگر ہم اس سود کو بہت ہلکی چیز سمجھے بیٹھے ہیں!