نبی اکرم نے سود کی شناعت کو ایک تمثیل سے واضح کیا ہے. سمجھانے کا یہ انداز خود قرآن کریم میں بھی موجود ہے. چنانچہ سورۃ الحجرات میں غیبت کی شناعت کو مردہ بھائی کے گوشت کھانے کی تمثیل سے واضح کیا گیا ہے. اسی طرح سود کے بارے میں نبی اکرم  نے فرمایا:

اَلرِّبَا سَبْعُوْنَ حُوْبًا اَیْسَرُھَا اَنْ یَنْکِحَ الرَّجُلُ اُمَّــہٗ (سنن ابن ماجہ)

’’سود ایسے ستر گناہوں کے برابر ہے جن میں سب سے ہلکا گناہ یہ ہے کہ آدمی خود اپنی ماں کے ساتھ بدکاری کا مرتکب ہو.‘‘
اس حدیث کی روشنی میں سود کے گناہ کی شدت اور تناسب کا حساب لگایا جاسکتا ہے. 
(العیاذ باللہ) ستر گناہوں میں سے سب سے ہلکا گناہ اپنی ماں کے ساتھ بدکاری. استغفراللّٰہ! 

سود کا دائرہ

سود کے بارے میں پوری دنیا میں ایک مغالطہ پیدا کر دیا گیا ہے کہ قرآن جسے رِبا کہتا ہے وہ تو صرف usury ہے. یعنی کوئی شخص ذاتی استعمال کے لیے قرض لے اور قرض دینے والا اپنی اصل رقم سے زیادہ وصول کرے‘ اور واپسی کی مدت میں جتنا اضافہ ہو قرض دینے والا اسی نسبت سے اصل قرض پر اضافہ کرتا چلا جائے. حالانکہ ربا صرف یہی نہیں بلکہ کمرشل انٹرسٹ اور بینک انٹرسٹ بھی ربا ہے.

یہ سعادت بھی اسی خطۂ ارضی کے حصے میں آئی ہے کہ یہاں کی وفاقی شرعی عدالت نے اپنے مبسوط اور مدلل فیصلے میں تجارتی قرض کے انٹرسٹ اور بینک انٹرسٹ کو بھی حرام قرار دیا ہے. ہمارے ہاں کے بڑے بڑے جغادری دانشوروں نے عدالت میں جا جا کر دلائل دیے کہ بینک انٹرسٹ ربا نہیں. ان دانشوروں میں کراچی کے خالد ایم اسحاق اور لاہور سے ایس ایم ظفر بھی شامل ہیں. ان سب نے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیا لیکن دلائل میں مار کھائی. اللہ تعالیٰ جسٹس ڈاکٹر تنزیل الرحمن کو اجر عطا فرمائے جنہوں نے کمال جرأت کے ساتھ مدلل فیصلہ دیا. عہد حاضر میں بینک انٹرسٹ کو حرام قرار دینا کوئی معمولی بات نہیں ہے .