علامہ اقبال‘ جن کو مصو ّرِ پاکستان کا لقب بھی دیا گیا ہے‘ انہوں نے مسلم لیگ کے اجلاس الٰہ آباد کی صدارت کرتے ہوئے ۱۹۳۰ء میں سب سے پہلے پاکستان کا نام لیے بغیر پاکستان کا تصور پیش کیا تھا. اسی خطبہ ٔالٰہ آباد میں انہوں نے ایک اور اہم بات کہی تھی. انہوں نے فرمایا تھا:

’’اگر ہم ایک ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے تو ہمارے لیے یہ موقع پیدا ہو جائے گا کہ ہم اسلام کی اصل تعلیمات جن پر عرب دور ملوکیت کے دوران پردے ڈال دیے گئے تھے ان کو ہٹا کر اسلام کی صحیح صور ت دنیا کے سامنے پیش کریں.‘‘

یہ ہے علامہ اقبال کا پاکستان کے بارے میں تصور‘ جس کی طرف ابھی تک ہمارا رخ 
بھی نہیں ہوا. علامہ اقبال کے ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسلام پر عرب ملوکیت کے اثرات کو کس نگاہ سے دیکھتے تھے. حقیقت یہ ہے کہ اس ملوکیت نے ہماری فقہ پر بھی اثرات ڈالے ہیں. چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ نے سختیاں جھیلیں‘ جیل جانا قبول کیا‘ مگر قاضی القضاۃ کا عہدہ قبول نہیں کیا‘ جبکہ ان کے شاگرد نے یہ عہدہ بہرحال قبول کیا. میں قاضی امام ابویوسف رحمہ اللہ علیہ کی نیت پر ہرگز حملہ نہیں کر رہا‘ انہوں نے اپنی مصلحت‘ اُمت کی مصلحت یا حالات کا تقاضا سمجھ کر یہ عہدہ بہرحال قبول کیا. اس طرح امام ابوحنیفہؒ اور امام ابویوسفؒ کے طرزِ عمل میں بہرحال فرق تو واقع ہو گیا. اب قاضی ابویوسف ملک کے چیف جسٹس ہیں‘ لیکن جو برائی آ چکی ہے وہ اس کو دفع کیسے کریں؟ چنانچہ ’’نظریۂ ضرورت‘‘ کے تحت قاضی ابویوسف اور امام محمد رحمہما اللہ نے بعض کڑی شرائط لگا کر مزارعت کے جواز کا فتویٰ دے دیا . ان شرائط میں مثلاً یہ شرط بھی ہے کہ مالک ِزمین بیج بھی مہیا کرے اور مزید فلاں فلاں چیزیں بھی مالک کے ذمہ ہیں‘ تاکہ اگر فصل تباہ ہو تو کچھ نہ کچھ نقصان زمیندار کو بھی تو اٹھانا پڑے‘ سارا تاوان بیچارے کاشتکار پر تو نہ آئے.
یہ ’’نظریۂ ضرورت‘‘ آج بھی مؤثر ہے. چنانچہ جب مارشل لاء آ جاتا ہے تو ہماری عدالت ِعظمیٰ بھی اس کو اسی نظریۂ ضرورت کے تحت قبول کر لیتی ہے. اب عدالت فوج سے لڑ تو نہیں سکتی. ایسی صورت میں عدالتیں زیادہ سے زیادہ کچھ شرطیں لگا سکتی ہیں‘ مثلاً یہ کہ انتخابات نو ّے دن کے اندر کرائے جائیں. یہ الگ بات ہے کہ یہ نو ّے دن پھیلتے پھیلتے گیارہ سال پر محیط ہو جائیں!

یہ بعینہٖ وہی چیز ہے کہ ہمارے فقہاء نے متغلِّب کی اطاعت کو بھی ضروری قرار دیا ہے‘ کیونکہ بدامنی اورانار کی بہرحال قابل ِقبول نہیں. بنو اُمیہ اور بنوعباس کے دَور میں یہی صورت حال پیدا ہو گئی تھی. ملوکیت کا راستہ روکنے کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی تھیں. چنانچہ ان ملوک کی اطاعت کے سوا کوئی چارہ نہ رہا تھا.

بہرحال میرے نزدیک مزارعت زمین کا سود ہے. اس ضمن میں نبی اکرم کی حدیث مبارکہ بھی موجود ہے‘ اگرچہ بعض حضرات نے اس حدیث کی ایک دوسری تاویل کی ہے. سنن ابی داؤد میں روایت ہے کہ ایک دفعہ نبی کریم  نے حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کو ایک کھیت میں کام کرتے اور اسے پانی لگاتے ہوئے دیکھا. آپؐ حیران ہوئے کہ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ تو مہاجر ہیں. آپ ؐ نے اُن سے سوال کیا: یہ کس کا کھیت ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ یہ زمین فلاں انصاری کی ہے‘ میں نے اس میں بیج ڈالا ہے اور اس پر محنت کر رہا ہوں‘ پیداوار ہمارے درمیان تقسیم ہو جائے گی. اس پر آپ  نے فرمایا : اَرْبَیْتُمَا ’’تم دونوں نے یہ سودی معاملہ کیا ہے‘‘ . اور مزید ارشاد فرمایا: فَرُدَّ الاَرْضَ عَلٰی اَھْلِھَا وَخُذْ نَفْقَتَکَ (سنن ابی داوٗد) ’’پس زمین اس کے مالک کو واپس کر دو اوراس سے اپنا (بیج وغیرہ کا) خرچ وصول کر لو.‘‘

بعض حضرات نے اس حدیث مبارکہ کی یہ تاویل کی ہے کہ یہ ممانعت ایک مخصوص قسم کی مزارعت کے لیے تھی‘ جس کی رو سے تقسیم پیداوار کا طریقہ یہ تھا کہ نالیوں کے پاس پیدا ہونے والی فصل مالک ِزمین کو اور دُور دُو رپیدا ہونے والی فصل کاشتکار کو دی جائے گی. اس تأویل سے حدیث کو خاص کر لیا گیا‘ ورنہ خود حدیث کے الفاظ تو عام ہیں. بہرحال آپ کے سامنے میں نے اپنی رائے رکھ دی ہے.

ہم نے اس موضوع پر مولانا محمد طاسین صاحب مدظلہ کی ایک کتاب ’’مروّجہ نظامِ زمینداری اور اسلام‘‘ کے نام سے شائع کی ہے. انہوں نے جو بات کی ہے‘ دلائل سے کی ہے. کتاب کی اشاعت سے قبل ہم نے اسے ’’حکمت قرآن‘‘ اور ’’میثاق‘‘ میں شائع کیا تھا اور وہ شمارے جن میں یہ مضامین شائع ہوئے تھے‘ بعض علماء کی خدمت میں پیش کر دیے تھے. متعدد علماء نے ان مضامین پر بڑی تنقید کی اور ان کو غلط قرار دیا. میں نے ان سے کہا کہ آپ تنقید لکھیں تاکہ ہم اس کو شائع کریں‘ مگر تنقید لکھنے کی زحمت کسی نے نہ کی .