ہم نے عہد حاضر میں اہم مسائل پر گفتگو کا آغاز کیا ہے تاکہ بات نکھر کر سامنے آئے. اس وقت ایک بحث بیع مؤجل اور بیع مرابحہ کے حوالے سے بھی جاری ہے.

بیع مؤجل کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اگر آپ کوئی چیز نقدرقم ادا کر کے لیں تب تو مثلاً آپ سے ۱۰۰ روپے قیمت وصول کی جائے گی‘ لیکن اگر آپ قیمت سال بھر کے بعد ادا کریں تو قیمت مثلاً ۱۲۰روپے وصول کی جائے گی. ہمارے ہاں اس کے جواز کا بھی فتویٰ دیا گیا ہے. اس ضمن میں مَیں یہ عرض کروں گا کہ عقل اور منطق کے استدلال سے اس میں اور سود میں فرق کیا ہے؟ وہ چیزیں جو بازار میں نقد قیمت پر دستیاب ہیں‘ ان کو اگر آپ قسطوں پر لیں اور قیمت زیادہ ادا کریں‘ تو قیمت میں جو اضافہ ہے اسے سود کے علاوہ اور کیا نام دیا جا سکتا ہے؟ عجیب بات یہ ہے کہ اس جواز کا کوئی متعین فتویٰ بھی نہیں ہے‘ بس ایک عبار ت کہیں سے نکلی ہے جس کے الفاظ کچھ اس طرح پر ہیں ’’کیا تم دیکھتے نہیں کہ اس کا رواج ہے.‘‘ اب اس عبارت کو لے کر ہمارے ہاں قسطوں کا جو سارا کاروبار ہو رہا ہے اس کا جواز ڈھونڈا جا رہا ہے. اسی سے ضیاء الحق صاحب نے سود کو مشرف بہ اسلام کیا ہے. آپ کسی بینکار سے PLS کے حوالے سے پوچھ لیں‘ وہ صاف کہے گا کہ سود ہے‘ ہم نے صرف نام تبدیل کیا ہے. اس طرح مختلف فقہی حیلوں سے بیع مؤجل کے جواز کا فتویٰ دیا جا رہاہے.

صرف ایک صورت استثناء کی یہ ہو سکتی ہے کہ ایک چیز جو نقد مل ہی نہیں رہی ہے یا کوئی چیز ایسی ہے جس کی نقد اور ادھار قیمت میں کوئی فرق نہیں ہے. مثلاً معاملہ یوں طے ہوا ہو کہ قیمت جو بھی آج طے ہو گئی ہے اس کی ادائیگی ایک سال بعد ہو گی تو یہ صورت بہرحال سود کی نہیں ہے. اس سلسلہ میں بھی ہمارے فقہاء کہتے ہیں کہ اگر طے شدہ مدت میں قیمت کی ادائیگی نہ ہوئی اور اس میں کچھ اضافہ کرنا پڑا تو مدتِ ادائیگی میں اضافے کی وجہ سے قیمت میں اضافہ نہ کیا جائے گا‘ کیونکہ یہ اضافہ سود ہو گا.

اسی طرح کا معاملہ ’’بیع مرابحہ‘‘ کا ہے. بیع مرابحہ کیا ہے؟ اس کو آپ یوں سمجھئے کہ مجھے بازار سے کوئی چیز خریدنی ہے‘ لیکن میرے پاس وقت نہیں ہے. اب میں کہتا ہوں کہ آپ بازار سے خرید کر مجھے لا دیجیے‘ میں اس پر آپ کو اتنا نفع دے دوں گا. مثلاً آپ سو روپیہ کی چیز خریدتے ہیں تو میں آپ کو دس روپیہ زائد دے دوں گا. یہ دراصل اس شخص کی محنت کا معاوضہ ہے اور بالکل جائز ہے. اسے ایک طرح کی وکالت سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے‘ مگر اس وقت اسی کو بنیاد بنا کر بینکنگ کے نظام کو نام نہاد ’’اسلامی‘‘ بنا دیا گیا ہے‘ جو نظام سود پر مبنی ہے.