چنانچہ اس انقلابی جدوجہد کا پہلا قدم ’’دعوتِ ایمان بذریعہ قرآن‘‘ ہے. اس طرح سے جو حقیقی ایمان حاصل ہو گا اس کے نتیجے میں سب سے پہلے انسان کا عمل درست ہو گا. جیسا کہ پہلے بھی کہا جا چکا ہے کہ دل میں حقیقی ایمان ہو اور عمل درست نہ ہو‘ ایسا ہونا ممکن ہی نہیں.
دوسرا نتیجہ یہ نکلے گا کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے بندے کو عطا کیا ہے‘یعنی اسے اپنے جسم و جان اور مال و منال پر جو شخصی خلافت عطا کی ہے اس سے کام لے کر وہ اپنا سب کچھ اللہ کے دین کی راہ میں کھپا دے گا. میں نے پہلے خطبۂ خلافت میں بتایا تھا کہ خلافت کی ایک قسم خلافت شخصی ہے‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے ہم کو جو کچھ عطا کیا ہے اس کے استعمال میں ہم شخصی طور پر خلیفہ کی حیثیت سے کام کرنے پر مامور ہیں. اس شخصی خلافت کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ اصل مالک جس کام میں ان چیزوں کو کھپانے کا حکم دیتا ہے اس کام میں ان کو بے‘دریغ کھپا دیا جائے. چنانچہ سورۃ الحدید میں ارشاد فرمایا گیا ہے:
اٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ اَنۡفِقُوۡا مِمَّا جَعَلَکُمۡ مُّسۡتَخۡلَفِیۡنَ فِیۡہِ ؕ (الحدید:۷)
’’ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور (اس ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ) خرچ کرو اس میں سے جس میں اس نے تمہیں خلافت عطا کی ہے.‘‘
ایمانِ حقیقی کا تیسرا نتیجہ ’’جہاد‘‘ ہے. یہ ایمان کا منطقی نتیجہ ہے‘جیسا کہ سورۃ الصف کی درج ذیل آیت کے حوالے سے بتا چکا ہوں کہ:
تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِکُمۡ وَ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ
(آیت ۱۱)
’’تم ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے اموال اور اپنی جانوں سے.‘‘
چوتھا نتیجہ ’’تزکیہ‘‘ ہے. تزکیہ حقیقتاً کوئی علیحدہ عمل (۱۶) نہیں ہے. یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ایمان میں جتنی گہرائی بڑھتی چلی جائے گی منطقی طو رپر اس کا باطن اتنا ہی زیادہ منور ہوتا چلا جائے گا. نورِ ایمان سے ظلمات اور تاریکیاں چھٹتی چلی جائیں گی. یہ ہے تزکیہ اور تجلیہ ٔباطن کا نبویؐ طریقہ. (۱۷)
میں نے منہج انقلاب نبویؐ کے دو مراحل کو یکجا کر کے ان کو ایک مرحلے کے طور پر بیان کر دیا ہے‘یعنی دعوتِ ایمان اور تزکیہ.
انقلاب کے لیے سب سے پہلے ایسے مردانِ کار کی ضرورت ہے جن کے قلوب و اَذہان نورِ ایمان سے منور ہو چکے ہوں. (۱۸) یہ لوگ آپ کی دعوت سے اس انقلابی فکر کی طرف کھنچیں گے. یہ دعوت‘دعوتِ ایمان ہو گی اور اس کا ذریعہ قرآن ہو گا. اب ان جاںنثاروں کی تربیت و تزکیہ ہو گا‘اور تزکیہ کا یہ عمل بھی قرآن ہی کے ذریعے ہوگا. گویا یہ دونوں عمل یعنی دعوت اور تزکیہ قرآن کے گرد گھوم رہے ہیں. یہ مضمون قرآن حکیم میں چار مقامات پر آیا ہے. چنانچہ سورۃ الجمعہ میں ارشاد ہے:
ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ٭ (الجمعہ :۲)
’’وہی ہے جس نے ان پڑھوں میں ایک رسول انہی میں سے مبعوث فرمایا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے.‘‘
یہی مضمون سورۂ آل عمران کی آیت ۱۶۴ میں ان الفاظ میں وارد ہوا ہے:
لَقَدۡ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذۡ بَعَثَ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡ اَنۡفُسِہِمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ۚ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ﴿۱۶۴﴾
’’اللہ نے ایمان والوں پر احسان کیا کہ ان میں ایک رسول انہی میں سے اٹھایا. وہ ان کو اُس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے‘اگرچہ وہ اس سے پہلے صریح گمراہی میں تھے.‘‘
ان دو مقامات کے علاوہ یہی مضمون سورۃ البقرۃ میں بھی دو مقامات (۱۹) پر آیا ہے‘ اور یہ سارا عمل دراصل مردانِ کار کی تیاری ہے. یہ جاں نثار مجاہد تیار ہوں گے تو جہاد کا عمل شروع ہو گا. چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ مصر سے نکلنے والے چھ لاکھ افراد تھے جو بارہ قبیلوں میں تقسیم تھے. مگر تربیت نہ ہونے کے باعث یہ بڑے ’’بودے‘‘ لوگ تھے. جب مصر سے ہجرت کے بعد قتال کا مرحلہ آیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے قوم کو اس فرض کی ادائیگی کے لیے پکارا تو انہوں نے جواب دیا:
فَاذۡہَبۡ اَنۡتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا ہٰہُنَا قٰعِدُوۡنَ ﴿۲۴﴾ (المائدۃ)
’’(موسیٰ!) تم اور تمہارا رب (دونوں) جاؤ اور جنگ کرو ہم تو یہاں بیٹھے ہیں.‘‘
اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور فریاد کی:
قَالَ رَبِّ اِنِّیۡ لَاۤ اَمۡلِکُ اِلَّا نَفۡسِیۡ وَ اَخِیۡ فَافۡرُقۡ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَ الۡقَوۡمِ الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿۲۵﴾ (المائدہ )
’’(موسیٰ علیہ السلام نے) کہا :میرا بس نہیں ہے مگر اپنے آپ پر اور اپنے بھائی پر‘ تو (اے میرے رب!) ہمارے اور ان بگڑے ہوئے (فاسق) لوگوں کے درمیان تفریق کر دے. (میں ان ناہنجاروں کے درمیان رہنے پر تیار نہیں ہوں کہ فرعون کی غلامی سے نجات پانے اور اتنے عظیم معجزوں کو دیکھ لینے کے باوجود جن کا یہ حال ہے!!)‘‘
اس کے مقابلے میں مکہ سے ہجرت کے بعد جب بدر کا مرحلہ آیا اور نبی ﷺ نے اپنے تین سو تیرہ اصحاب سے قریش کے لشکر ِجرار کا مقابلہ کرنے کے لیے مشورہ طلب کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ حضور!ہمیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں پر قیاس نہ فرمائیں‘ جنہوں نے کہہ دیا تھا کہ: ’’تم اور تمہارا رب (دونوں) جاؤ اور جنگ کرو‘ ہم تو یہاں بیٹھے ہیں.‘‘ ہم تو آپؐ کے آگے سے آپ ؐ کے پیچھے سے آپؐ کے دائیں سے اور آپؐ کے بائیں سے جنگ کریں گے. اسی لیے اکبر الٰہ آبادی نے کہا تھا: ؎
خدا کے کام دیکھو! بعد کیا ہے اور کیا پہلے
نظر آتا ہے مجھ کو بدر سے غارِ حرا پہلے
غارِ حرا ہی سے تو نزولِ قرآن شروع ہوا تھا اور بقول مولانا الطاف حسین حالی ؔوہیں سے مس خام کو کندن بنانے والا نسخہ کیمیا (قرآن) ہاتھ آیا تھا ؎
اُتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ سیرتِ نبوی ؐ کے ابتدائی پندرہ برس تک اسی نسخہ کیمیا سے کیمیا گری ہوتی رہی. دعوت و تبلیغ سے لے کر تزکیۂ نفوس تک تمام مراحل قرآن کے ذریعے ہی طے ہوتے رہے. ان مراحل سے گزرنے کے بعد بدر کا مرحلہ آیا. تاریخ میں ہمیں بدر کا مرحلہ بہت اہم نظر آتا ہے‘لیکن حقیقت میں اہم تر وہ مرحلہ ہے جس میں بدر کے لیے لوگ تیار کیے گئے.