ان مردانِ کار کی تیاری کے بعد تنظیم کا مرحلہ آتاہے. وہ لوگ جو اس دعوتِ ایمان کے نتیجے میں تزکیۂ نفوس کے مراحل سے گزر کر اپنی ذات پر اللہ کا دین قائم کر چکے‘جب تک انہیں کسی مضبوط تنظیم کے اندر جوڑا نہیں جائے گا یہ کچھ نہ کر سکیں گے. (۲۰چنانچہ نبی  نے جماعت کی اہمیت کو بہت واضح کیا ہے. آپؐ کا ارشادِ گرامی ہے: آمُرُکُمْ بِخَمْسٍ کہ مسلمانو! میں تم کو پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں. ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں اَللّٰہُ اَمَرَنِیْ بِھِنَّ یعنی اللہ نے مجھے ان (باتوں) کا حکم دیا ہے. (۲۱وہ پانچ باتیں کیا ہیں جن کا آنحضرت  نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم دیا ہے: 

بِالْجَمَاعَۃِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ وَالْھِجْرَۃِ وَالْجِھَادِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ
’’ التزامِ جماعت کا (حکم)‘سننے کا (حکم)‘ماننے کا (حکم)‘ہجرت (راہِ خدا میں ترکِ وطن) کا اور اللہ کی راہ میں جہاد کا (حکم).‘‘

یہ حدیث سنن الترمذی اور مسند احمد میں روایت ہوئی ہے.

ہمارے فکری افلاس اور بدقسمتی کی حد یہ ہے کہ نبی اکرم  کے اس قولِ مبارک کی طرف مسلمانوں کی توجہ ہی نہیں ہے. بھاری اکثریت تو گویا اس کے وجود ہی سے بے خبر ہے‘جب کہ وہ حدیث جس میں ارکانِ اسلام کا ذکر ہے خوب شہرت رکھتی ہے اور تقریباً ہر مسلمان کے ذہن میں اس کا مفہوم موجود ہے. دونوں احادیث مبارکہ میں پانچ پانچ  باتوں ہی کا ذکر ہے. ارکانِ اسلام والی حدیث ِخبر یہ اوریہ حدیث امر (حکم) کی صورت میں ہے.

ہماری اس محرومی کی وجہ یہ ہے کہ جب نظام خلافت ختم ہوا تو اس کے بعد ملوکیت آ گئی. ملوکیت دو طرح کی آئی. پہلے مسلمانوں کی ملوکیت آئی‘اس کے بعد غیرمسلموں کی ملوکیت. چنانچہ بلادِ اسلامیہ کے اکثر حصے مغربی اقوام کی غلامی میں آگئے. ہم برعظیم پاک و ہند کے مسلمان انگریزوں کے غلام تھے. غلامی کے دور میں نماز روزہ تو چلتا رہا‘ لہذا اس کا تصور تو ذہنوں میں موجود رہا‘جب کہ جہاد و قتال‘ انقلاب اور اقامت ِدین ذہنوں سے نکلتے چلے گئے‘ اور پھر آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل والی کیفیت پیدا ہو گئی. بہرحال انقلابی جدوجہد کے دوسرے مرحلے میں ’’جماعت‘‘ کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے. اس جماعت کا نظم بھی فوجی انداز کا مقرر کیا گیا ہے کہ افسر جو حکم دے اسے سنو اور مانو. تمہیں یہ حق نہیں کہ اس سے پوچھ سکو کہ یہ حکم کیوں دے رہے ہو‘اس حکم کی حکمت اور غرض و غایت کیا ہے‘جو حکم تم دے رہے ہو وہ معقول بھی ہے یا نہیں.آپ کو یہ کہنے کا حق نہیں کہ پہلے مجھے سمجھاؤ تب میں حکم مانوں گا. اگر کسی فوج میں سوال جواب کا یہ سلسلہ شروع ہو جائے تو پھر وہ فوج کہلانے کی مستحق نہیں رہتی. (۲۲گویا اس جماعت کو سمع و طاعت کا خوگر ہونا چاہیے. اسی کی یاد دہانی کراتے ہوئے قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے: اِذۡ قُلۡتُمۡ سَمِعۡنَا وَ اَطَعۡنَا ۫ (المائدۃ:۷’’(یاد کرو) جب تم نے کہا تھا کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی.‘‘ سورۃ البقرۃ کی آخری آیت سے پہلے کی آیت میں یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں:

وَ قَالُوۡا سَمِعۡنَا وَ اَطَعۡنَا ٭۫ غُفۡرَانَکَ رَبَّنَا وَ اِلَیۡکَ الۡمَصِیۡرُ ﴿۲۸۵
’’اور انہوں نے کہا ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی. ہم تیری بخشش کے طلبگار ہیں اے ہمارے رب! اور تیری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے.‘‘

قرآن حکیم میں آپ کو سمع و طاعت کی اصطلاح بار بار ملے گی. یہ دونوں اصطلاحات گاڑی کے دو پہیوں کی طرح ساتھ ساتھ آتی ہیں‘کیونکہ کسی انقلابی جماعت کا ان کے بغیر تصور بھی نہیں کیا جا سکتا.
(۲۳