(۱) میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ ان بنیادی مباحث پر مجھے سیر حاصل بحث اور گفتگو کی توفیق ہوئی اور ’’خطباتِ خلافت‘‘ اپنے تکمیلی مرحلے تک پہنچ گئے. یہ جو کچھ ہوا ہے سب اللہ تعالیٰ کے اذن سے ہوا ہے. اس کائنات میں تو ایک پتا بھی اس کے اذن کے بغیر جنبش نہیں کر سکتا. اگر اللہ تعالیٰ حالات کو ساز گار اورموافق نہ بنا دیتا تو ہم کچھ بھی نہ کر سکتے تھے. اس موقع پر اکبر الٰہ آبادی مرحوم کے دو شعر مجھے یاد آتے ہیں: ؎ 

یہ عزم ترا سعی سے دمساز ہو کیونکر
اسباب نہ ہوں جمع تو آغاز ہو کیونکر
اسباب کرے جمع خدا ہی کا ہے یہ کام
طالب ہو خدا سے تو‘دعا ہی کا ہے یہ کام 

(۲) جیسا کہ گزشتہ مباحث میں بتایا جا چکا ہے کہ نبی  نے صریح‘ پیشینگوئی فرمائی ہے کہ قیامت سے قبل اس دنیا میں خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا نظام قائم ہو گا اور یہ قیام ہو گابھی عالمی سطح پر (دنیا کے کسی محدود خطے میں نہیں)‘البتہ اس نظام کا قیام کس وقت ہو گا؟ اس سوال کا جواب آنحضرت  نے نہیں دیا. اس لیے ہم بھی وقت کا تعین نہیں کر سکتے‘تاہم اللہ کے رسول 
نے جو آثار و علامات بیان فرمائی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اب یہ زیادہ دور کی بات نہیں ہے. حضور  کے بیان کردہ حالات وواقعات تیز رفتار ڈرامے کی طرح یکے بعد دیگرے ظہور پذیر ہو رہے ہیں‘اور ان واقعات کے پے بہ پے ظہور سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور  نے جو خوشخبری دی ہے اس کی تکمیل کا وقت بہت قریب ہے.

(۳) خواہش یا عربی میں ’’اُمْنِیَّۃ‘‘ اس طلب کو کہتے ہیں جس کے پیچھے اس کے مطابق عمل نہ ہو.

(۴) اگرچہ یہ اپنی جگہ بہت بڑی حقیقت ہے کہ نبی اکرم  کی سیرتِ طیبہ کا آپ مطالعہ کریں تو وہاں معجزات کا عمل دخل نہ ہونے کے برابر ہے. اس کے برعکس آپ  نے جو انقلاب برپا کیا وہ محنت اور مشقت جھیل کر کیا ہے. اس طرح گویا اُمت کے لیے معجزات کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہا.

(۵)’’قنوتِ نازلہ‘‘ نماز فجر کی دوسری رکعت میں رکوع کے بعد پڑھی جانے والی دُعا ہے جو کسی بڑی ہنگامی مصیبت کو دُور کرنے کے لیے اور دشمنانِ اسلام و مسلمین کو ناکام کرنے کے لیے پڑھنا مسنون ہے.

(۶) قبولیتِ دعا کی لازمی شرائط درج ذیل ہیں:
i) دعاپورے یقین‘ایمان اور اخلاص کے ساتھ کی جائے.
ii) بندہ یا توکلی طور پر بے بس ہو یا مطلوب شے کے حصول کے لیے اپنی تمام صلاحیتیں اور وسائل لگا چکا ہو.
iii) دُعا حقوق اللہ اور حقوق العباد کے خلاف نہ ہو.
iv) عذاب کا فیصلہ ہو چکنے کے بعد عذاب ٹالنے کی دُعا نہ ہو (صرف حضرت یونس علیہ السلام کی قوم اس سے مستثنیٰ قرار پائی).
ان شرائط کے ساتھ جو دعا بھی کی جاتی ہے وہ درج ذیل تین صورتوں میں سے کسی نہ کسی ایک صورت میں لازماً قبول ہوتی ہے:

ا) بندہ جو کچھ مانگ رہا ہے وہی کچھ اسے عطا کر دیا جائے.
ب) اس سے بہتر یا اس کے مساوی کوئی شے بندے کو عطا کر دی جائے.
ج) ’’دُعا‘‘ اگر کلی مصلحت کے خلاف ہو اور قبول نہ کی جا سکتی ہو تو اس کو بندے کے اعمال نامے میں درج کرکے روز جزا میں اس کا اجر دینے کے لیے محفوظ کر دیا جائے.

(۷) عوام اسی حقیقت کا اظہار عوامی پیرائے میں یوں کیا کرتے ہیں:’’اللہ نے چار کتابیں اتاریں اور پانچواں اتارا ’’ڈنڈا‘‘ . علامہ اقبال نے اسے اپنے انداز میں یوں کہا ہے: ؎
رشی کے فاقوں سے ٹوٹا نہ برہمن کا طلسم
عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد! 

(۸) اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی پیش نظر رہے: ’’اللہ نے مؤمنوں سے ان کی جانیں اور ان کا مال جنت کے بدلے میں خرید لیا ہے‘وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں تو قتل کرتے بھی ہیں اور قتل ہوتے بھی ہیں.‘‘

(۹) اس قسم کی جملہ کارروائیاں اسلام کے احکام اور قتال کے جواز کی شرائط اور حدود کے بھی خلاف ہیں‘جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں.

(۱۰) الجزائر میں الیکشن کے ذریعے تحریک کی کامیابی سے کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے‘نہ پاکستان کے معاملے کو الجزائر پر قیاس کرنا چاہیے. الجزائر میں آزادی کے بعد سوشلسٹ نظام قائم ہوا تھا‘ جس کے نتیجے میں جاگیرداری کا مکمل خاتمہ ہو گیا تھا. لہذا وہاں وہ رکاوٹ موجود ہی نہیں ہے جو پاکستان میں پہاڑ بنی کھڑی ہے.

(۱۱) اسلامی تحریکوں کو ناکام بنانے کے لیے یہ بھی ایک سازش کے تحت ہوتا ہے. اسلامی تحریک کو اس کے اصل طریقہ کار سے ہٹانے کے لیے اس پر تشدد کیا جاتا ہے تاکہ اس کے رد عمل میں تحریک بھی تشدد کا راستہ اپنائے اور اس تشدد کو بہانہ بنا کر ریاستی طاقت کے ذریعے تحریک کو کچل کر رکھ دیا جائے.

(۱۲) اس طرح کی مسلح جدوجہد میں بھی شرعی احکام کی سختی کے ساتھ پابندی ہونی چاہیے. مثلاً یہ کہ ان کارروائیوں کی ذمہ داری با اختیار امیر کے ہاتھ میں ہو اور غیر مسلح لوگوں یا شہریوں کو نقصان نہ پہنچایا جائے.

(۱۳) بالترتیب حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا‘حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ‘حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ اور حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ

(۱۴)یہی وجہ ہے کہ میں نے سورۃ الحجرات کی ان آیات کا درس کئی بار دیا ہے جن میں ’’ایمان‘‘ اور ’’اسلام‘‘ کو دو علیحدہ علیحدہ حقیقتیں قرار دیا گیا ہے تاکہ یہ مغالطہ رفع ہو جائے کہ ہم ’’فی الواقع مؤمن ہیں.‘‘ حقیقت یہ ہے کہ ہم مؤمن نہیں ہیں‘بس ہمارے پاس ایک موروثی عقیدہ ہے. ایمان تو ایک بہت بڑی طاقت اور نور ہے. دل میں حقیقی ایمان ہو اور عمل میں ’’جہاد‘‘ نہ ہو‘ایسا ہونا ممکن ہی نہیں. درحقیقت ایمان کسی اور شے کا نام ہے اور اسلام کسی اور شے کا نام! چنانچہ سورۃ الحجرات کی آیت ۱۴ میں ہے:’’یہ بدوکہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے. اے نبی  !ان سے کہہ دیں کہ تم ایمان ہرگز نہیں لائے ہو‘ہاں یوں کہو کہ ہم نے اسلام (فرماں برداری) کو اختیار کر لیا ہے. ایمان تو تمہارے دلوں میں اب تک داخل ہی نہیں ہوا ہے.‘‘

(۱۵) مسلم اُمہ کے اندر بصیرت کی موجودگی پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی جانب سے اللہ کا شکر ادا کرنے کا مشہور واقعہ اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ایک بار آپؓ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر میں ٹیڑھا ہو جاؤ ں تو تم کیا کرو گے؟ سامعین میں سے ایک نے تلوار پر ہاتھ رکھ کر کہا: ’’ہم تم کو اس سے سیدھا کر دیں گے.‘‘ تب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ جس قوم کی قیادت وہ کر رہے ہیں وہ قوم صاحب بصیرت ہے‘اندھوں اور بہروں پر مشتمل نہیں.

(۱۶)اس ضمن میں بہت سی باتیں باہر سے لا کر شامل کر دی گئی ہیں‘ ورنہ حضور  کا ’’سلوک‘‘ کل کا کل قرآن ہی کے ذریعے تھا.

(۱۷)انسان کا باطن کس طرح شیطان کی زد میں ہے اس کا پتا ایک حدیث مبارکہ سے چلتا ہے. آپ  نے فرمایا: اِنَّ الشَّیْطَانَ یَجْرِیْ مِنَ الْاِنْسَانِ مَجْرَی الدَّمِ (متفق علیہ) ’’شیطان انسان کے وجود میں خون کی طرح سرایت کیے ہوئے ہے‘‘. علامہ اقبال نے اسی بات کو یوں بیان کیا ہے: ؎ 

کشتن ابلیس کارے مشکل است
زانکہ او گم اندر اعماقِ دل است

یعنی ابلیس کو مارنا سخت مشکل ہے‘کیونکہ وہ دل کی گہرائیوں میں گھسا ہوا ہے.

ایک دوسری حدیث مبارکہ میں واضح کر دیا گیا ہے کہ اس ’’شیطان‘‘ کو مسلمان بنایا جا سکتا ہے. حدیث اس طرح پر ہے کہ ایک بار آنحضرت  نے فرمایا: ’’ہر انسان کے ساتھ ایک شیطان ہوتا ہے.‘‘ اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے ان صحابی رضی اللہ عنہ کو جنہوں نے بڑی ہمت کر کے پوچھ لیا: ’’ حضور  !کیاآپ کے ساتھ بھی کوئی شیطان ہے؟‘‘ اس سوال کے جواب سے ہمیں یہ حکیمانہ نکتہ ملا کہ ’’ہاں! مگر میں نے اسے مسلمان بنا لیا ہے.‘‘ یہی بات اقبال نے اپنے اندازمیں اس طرح کہی ہے: ؎ 

خوشتر آں باشد مسلمانش کنی
کشتہ شمشیر قرآنش کنی!

یعنی (اس شیطان کو مارنے سے) زیادہ بہتر یہ ہو گا کہ اس کو مسلمان بنا لو اور قرآن کی تلوار سے اسے مار دو‘ کیونکہ یہ قرآن ہی ہے جو انسان کی رگ رگ میں سما جاتا ہے. اور شیطان خون کے جس جس خلیے میں پہنچتا ہے وہاں قرآن بھی پہنچ کر اسے مسلمان بناتا ہے.)

قرآن کے اسی وصف کو اقبال نے اس طرح بیان کیا ہے: ؎

چوں بجاں در رفت جاں دیگر شود
جاں چوں دیگر شد جہاں دیگر شود 

یعنی جب قرآن روح میں اتر جاتا ہے تو وہ روح ایک دوسری روح بن جاتی ہے اور جب روح دوسری ہو جائے تو عالم بھی بدل کر دوسرا ہو جاتا ہے. قرآن مجید جب کسی کے اندر سرایت کرتا ہے تو انقلاب عظیم برپا کر دیتا ہے. اس کا فکرہی بدل کر رہ جاتا ہے. پہلے زندگی سب سے زیادہ قیمتی شے نظر آتی تھی‘مگر اب شہادت کی موت سب سے قیمتی شے نظر آنے لگتی ہے. حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے یہی بات دشمن کی فوج کو کہلا بھیجی تھی کہ میرے ساتھ وہ لوگ ہیں جن کو موت اتنی ہی عزیز ہے جتنی تمہیں زندگی عزیز ہے. تم ان لوگوں کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہو؟ بقول علامہ اقبال: ؎

شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مؤمن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی

زندگی اور موت کے بارے میں جن کا نقطۂ نظر یہ ہواُ نہیں بھلا کس بات کا خوف ہو سکتا ہے!! یہی وجہ ہے کہ غزوۂ موتہ کے موقع پر تین ہزار صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ایک لاکھ کی فوج سے ٹکرا گئے. اور بعض روایات کے مطابق ہرقل اپنی ایک لاکھ فوج کے ساتھ جب آ ملا تو تین ہزار کا مقابلہ دو لاکھ کی منظم فوج سے ہوا. صحابہ رضی اللہ عنہ نے اس سنگین صورت حال پر جب مشورہ کیا تو فیصلہ یہی ہوا کہ ہم تو شہادت کی تمنا میں یہاں آئے ہیں‘فتح حاصل کرنا ہمارا مقصود نہیں ہے. اسی جنگ میں حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ شہید ہوئے. یہ ہے وہ اندر کا انقلاب جو قرآن کے ذریعے برپا ہوا تھا.

(۱۸)یہ بات نو ٹ کر لینی چاہیے کہ انبیاء علیہم السلام کی تاریخ میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ جن کو مردانِ کار نہیں ملے وہ انقلاب برپا نہیں کر سکے. ظاہر بات ہے کہ ناکام وہ انبیاء نہیں ہوئے بلکہ ان کی قومیں ناکام ہوئیں.

(۱۹) آیت ۱۲۹ اور آیت ۱۵۱ (سورۃ البقرۃ)

(۲۰) بچپن میں ہم نے اور آپ نے یہ کہانی پڑ ھ رکھی ہے کہ ایک باپ نے اپنے بیٹوں کو نصیحت کی تھی اور ان سے کہا تھا کہ لکڑیوں کے اس گٹھے کو توڑو‘مگر بیٹوں میں سے کوئی بھی اس کام کو نہ کر سکا. مگر گٹھے کو کھول کر جب لکڑیاں الگ الگ کر دی گئیں تو بیٹوں نے بڑی آسانی سے ایک ایک لکڑی کو الگ الگ توڑ دیا. اس موقع پر باپ نے نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ دیکھو! اگر تم جمع رہے تو تم کو کوئی نہ توڑ سکے گا‘ لیکن تمہارے درمیان اگر تفرقہ پیدا ہوا تو تمہیں علیحدہ علیحدہ ہر کوئی آسانی سے زیر کرلے گا. اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ایک اکیلا اور دو گیارہ بن جاتے ہیں.

(۲۱) روایت کے مذکورہ بالا الفاظ محض تاکید مزید کے لیے ہیں‘اس لیے اگر ان باتوں کا حکم خود آنحضرت  اپنی طرف سے بھی دیتے تو وہ بھی اللہ کی طرف سے ہی ہوتا‘کیونکہ قرآن کہتا ہے: وَ مَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی ؕ﴿۳﴾اِنۡ ہُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰی ۙ﴿۴﴾ (النجم) ’’وہ اپنی خواہش سے کچھ نہیں کہتے .وہ تو وحی ہے جو(ان پر) نازل کی جاتی ہے‘‘ .

(۲۲) مجھے اس موقع پر میٹرک میں پڑھی ہوئی انگریزی نظم ’’چارج آف لائٹ بریگیڈ‘‘ کا ایک شعر یاد آ رہا ہے:

?Theirs not to reason why 
!Theirs but to do and die

’’حجت بازی کا یہ موقع نہیں کہ کیوں اور کیوں نہیں (وقت کا تقاضا صرف یہ ہے) کہ (حکم پر) عمل کرو اور (تعمیل میں) جان دے دو.‘‘

(۲۳) انقلابی جماعت کے تین لازمی اوصاف ہیں: (۱) وہ جماعت بالکل نئی ہو. (۲) اس جماعت میں شمولیت کے لیے اس کے نظریے کو شعوری طور پر قبول کرنا ضروری ہو‘پھر شمولیت اختیار کرنے کے بعد انسان اس نظریے کے لیے جان کی بازی تک کھیل جانے کے لیے آمادہ ہو. (۳) اس کے cadres بالکل نئے ہوں. ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ جو کسی حوالے سے پہلے سے معاشرے میں اونچا ہو وہ اس جماعت میں بھی اونچا ہی رہے. مثلاً معاشرے میں ’’سید‘‘ اونچا ہے لہذا وہ اس جماعت میں بھی اونچا متصور ہو‘اور ’مصلی‘‘ نیچ ہے لہذا وہ اس جماعت میں بھی نیچا ہی سمجھا جائے. اگر ایسا ہے تو وہ انقلابی جماعت نہیں ہے. اس کے برعکس انقلابی جماعت میں جس کی جتنی زیادہ قربانی ہے‘ وہ اتنا ہی بلند ہے. اس انقلابی نظریے کے ساتھ اس کی وابستگی اور قربانی ہی کسی کا مقام متعین کرنے کی بنیاد بنے گی.

(۲۴) سورۃ الفتح کی آیت ۱۸ میں بھی بیعت کا ذکر ہے اور اس بیعت پر اللہ کی رضا مندی کا اظہار ہے. اسی طرح سورۃ الممتحنہ کی آیت ۱۲ میں خواتین کی بیعت کرنے کا ذکر ہے اور اللہ کے رسول کو ان خواتین سے بیعت لینے کی ہدایت ہے.
(۲۵)میں تو بات سمجھانے کے لیے کہا کرتا ہوں کہ سچی نبوت کی عظمت و قوت کیا ہو گی اس کا تو شاید ہم تصور بھی نہیں کر سکتے‘ جھوٹی نبوت میں اتنی طاقت ہے کہ قادیانی جماعت کا نظم آج تک قائم ہے. اس لیے کہ جس نے بھی کسی کو نبی مان لیا اس کو تو اس کی اطاعت کرنی ہی ہے‘وہ اس سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں تب مانوں گا جب آپ مجھے اپنا حکم سمجھا دو گے. یہ بات کسی ایسے شخص سے کہی جا سکتی ہے کہ جس نے نبوت کا دعویٰ نہ کیا ہو. اسی طرح اگر آپ کسی کا دعوائے نبوت قبول نہیں کرتے تو اس سے دلیل کا مطالبہ کر سکتے ہیں. لیکن جس کی نبوت پر 
آپ ایمان لے آئے اس کا تو فرما دینا دلیل ہے. قرآن کہتا ہے وَ مَاۤ اٰتٰىکُمُ الرَّسُوۡلُ فَخُذُوۡہُ ٭ وَ مَا نَہٰىکُمۡ عَنۡہُ فَانۡتَہُوۡا ۚ (الحشر: ۷’’رسول تم کو جو کچھ دیں اسے لے لو اور جس چیز سے تم کو منع کر دیں اس سے رک جاؤ.‘‘ اب تو دجال ہی نبوت کا دعویٰ کریں گے. ایک دجال ’’مسیلمہ کذاب‘‘ بالکل ابتدائی دو رمیں ہی پیدا ہو گیا تھا‘اس کے بعد کوئی دجال ایران میں پیدا ہو گیا تو کوئی ہندوستان میں‘شاید کوئی اور بھی دجال پیدا ہو جائے. وہ المسیح الدّجّال تو خروج کرے گا ہی جس کی خبر احادیث میں دی گئی ہے‘ اس کے علاوہ چھوٹے چھوٹے دجال بھی پید اہو سکتے ہیں.لیکن نبی اب بہرحال کوئی نہیں آئے گا.

(۲۶) حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو آزاد کرنے کے بعد نبی  نے اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا. تاہم جاہلی روایات کے برخلاف اللہ تعالیٰ نے منہ بولے بیٹے کو صلبی بیٹے کا درجہ اور قانونی حقوق دینے کی ممانعت فرما دی تھی.

(۲۷) روایات میں ہے کہ بعض حضرات نے اس پر اعتراض بھی کیا مگر نبی  نے ان کے اعتراض کو سختی کے ساتھ مسترد فرما دیا. نبی  کی وفات کے بعد جب اس لشکر کی روانگی کا وقت آیا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے لیے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے لشکر میں عدم شمولیت کی اجازت باقاعدہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے حاصل کی کہ ہم دونوں اب ملکی نظام کے چلانے میں مصروف ہوں گے. نیز حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو گھوڑے پر سوار کر کے اور خود پیدل چل کر لشکر کو رخصت کیا.

(۲۸)’’ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے.‘‘ یہی فتنہ آج انکارِ سنت کی صورت میں ہمارے سامنے ہے. جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کے ذہن میں یہ بات بٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ حدیث وغیرہ کی کوئی ضرورت نہیں‘بس اللہ کی کتاب ہی کافی ہے.

(۲۹)فلسطین میں اسرائیل نے P.L.O کے ساتھ مصالحت اس لیے کی ہے کہ مسلمان مسلمان کو قتل کرے‘ یہودی یہ کام کیوں کریں.یہودی قتل کریں گے تو ان کے قتل ہونے کا بھی خطرہ رہے گا. اسی لیے منصوبہ یہ بنایا گیا کہ ان کی چھوٹی سی حکومت محدود اختیارات کے ساتھ بنا دی جائے ‘تاکہ یاسر عرفات فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ وہی کچھ کریں جو حسنی مبارک مصری مسلمانوں کے ساتھ کر رہا ہے.

(۳۰) انہوں نے اس کام کو چھوڑ کر اپنی توانائیاں جہادِ حریت میں کھپانی شروع کر دیں اور کانگریس میں شمولیت اختیار کر لی. یہ بات میں بارہاکہہ چکا ہوں کہ مجھے اس ابوالکلام سے کوئی دلچسپی نہیں ہے. میری دلچسپی ۱۹۱۲ء سے ۱۹۲۰ء تک کے ابوالکلام سے ہے. (۳۱)امام فخر الدین رازی ؒ (۱۱۴۹۱۲۱۰ء) محدث‘فقیہہ اور فلسفی. مشہور تفسیر ’’التفسیر الکبیر‘‘ کے مصنف ہیں.
(۳۲) جار اللہ زمخشری (۱۰۷۵۱۱۴۴ء) لغت‘نحو‘بلاغت اور تفسیر کے امام. معتزلی مسلک رکھتے تھے. 
انکشاف عن حقائق التنزیل ان کی مشہور تفسیر ہے.

(۳۳)یہاں ایک بات ان لوگوں سے کہوں گا جنہوں نے دنیوی علوم و فنون تو سیکھ لیے لیکن اتنی عربی زبان نہیں سیکھی کہ قرآن کو براہ راست سمجھ سکیں. وہ سوچ لیں کہ اللہ کے حضور کیا جواب دیں گے. حضور  کے ارشاد کے مطابق حَاسِبُوْا اَنْفُسَکُمْ قَبْلَ اَنْ تُحَاسَبُوْا (سنن الترمذی) ’’محاسبے سے پہلے اپنے نفس کا احتساب خود کر لو.‘‘ بقول علامہ اقبال: ؏ یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصہ محشر میں ہے!

(۳۴)نص قرآنی میں بھی کام کے ان تین حصوں کا ذکر شجر طیب کے تین حصوں کی صورت میں موجود ہے. سورۂ ابراہیم میں ہے: اَلَمۡ تَرَ کَیۡفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصۡلُہَا ثَابِتٌ وَّ فَرۡعُہَا فِی السَّمَآءِ ﴿ۙ۲۴﴾ ’’کیا تم نے غور نہیں کیا کہ اللہ نے کیسی اچھی مثال کلمہ ٔ طیبہ کی بیان فرمائی ہے کہ وہ ایک پاکیزہ درخت کے مشابہ ہے جس کی جڑ (زمین میں) جمی ہوئی ہے اور اُس کی شاخیں آسمان میں ہیں‘‘. درخت کی ایک جڑ ہوتی ہے‘ایک تنا ہوتا ہے اور پھر شاخیں ہوتی ہیں جو پھیل جاتی ہیں. درخت کی یہ مثال ایک حدیث مبارکہ میں بھی آئی ہے جو حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے. آپ ؐ نے فرمایا: ’’اے معاذ! اگر تم چاہو تو میں دین کے عملوں میں سے چوٹی کا عمل اور اس کی جڑ تمہیں بتا دوں.‘‘ انہوں نے عرض کیا: ’’میرے ماں باپ آپ ؐ پر قربان ہوں‘ ضرور ارشاد فرمایئے!‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’جڑ کا عمل تو یہ ہے کہ تو یہ گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے‘وہ اکیلا ہے‘اس کا کوئی شریک نہیں ہے. محمد ( ) اس کے بندے اور رسول ہیں. اور جس عمل سے دین کی گرفت مضبوط رہتی ہے وہ نماز ادا کرنا اور زکوٰۃ دینا ہے (یعنی نظم جماعت) اور اس کا چوٹی کا عمل جہاد فی سبیل اللہ ہے.‘‘