یہ تو سب جانتے ہیں کہ صرف ذاتِ باری تعالیٰ ’’واجب الوجود‘‘ اور ’’قدیم‘‘ ہے -جبکہ کل کون و مکان اور انسان سمیت جملہ مخلوقات و موجودات ’’ممکن‘‘ اور ’’حادث‘‘ ہیں -لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ ’’وجوب‘‘ سے ’’امکان‘‘ اور ’’قدم‘‘ سے ’’حدوث‘‘ کا سفر کیسے اور کن مراحل سے گزر کر طے ہوا -اور آیا اس طویل سفر میں ’’تنزل‘‘ ہی ’’تنزل‘‘ ہے‘ یا کوئی مرحلہ ارتقاء کا بھی آیا ہے؟
اس مشکل بلکہ تقریبًا لاینحل مسئلے کا ایک حل تو قدیم منطق اور فلسفے کے ماہرین نے کیا -کہ ’’واجب‘‘ سے ’’ممکن‘‘ اور ’’قدیم‘‘ سے ’’حادث‘‘ کے مابین ’’عقولِ عشرہ‘‘ اور ’’نُہ افلاک‘‘ (۱) تصنیف کر ڈالے جن کے لئے کوئی دلیل نہ تجرباتی علم میں ہے نہ وحی ٔ آسمانی میں! اسی طرح بعض متصوف المزاج بزرگوں نے مرتبۂ احدیت و واحدیت وغیرہ کے حوالے سے تنزلات ستہ تجویز کئے‘ لیکن ان کے لئے بھی کوئی صریح اساس نہ عقل میں ہے نہ نقل میں!
خود وحی آسمانی نے بھی اس کے ضمن میں نہ تفصیلی بحث کی‘ نہ صراحت سے کام لیا بلکہ صرف ’’اشارات‘‘ پر اکتفا کیا. اس لئے کہ اس کا اصل مقصد ’’ہدایت‘‘ اور ’’صراطِ مستقیم‘‘ کی وضاحت ہے اور اس کے ضمن میں بھی اس نے عوام کی ضروریات اور ان کے فہم و شعور کی سطح کو زیادہ پیش نظر رکھا ہے اور دقیق حقائق و معارف کے ضمن میں اجمالی اشاروں پر اکتفا کیا ہے کہ - (۱) دس عقلیں اور نو آسمان! ’’عاقلاں را اشارہ کافی است!‘‘
البتہ ؏ ’’عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں!‘‘ کے مصداق وہ ’’علم الاسماء‘‘ جو آدم علیہ السلام کو ابتداء ہی میں عطا کر دیا گیا تھا اور اس طرح گویا نوعِ انسانی میں بالقوہ (Potentially) ودیعت کر دیا گیا تھا‘ ظہور و بروز کی بے شمار منزلوں سے گزر کر اب اس مقام تک پہنچ گیا ہے کہ ’’تخلیق‘‘ اور ’’تسویہ‘‘ کی تحقیق و تفتیش سے بڑھ کر ’’تکوین‘‘ یا ’’ایجاد و ابداع‘‘ کے در پر دستک دے!