سلسلۂ تنزلات کی تیسری کڑی اُس وقت شروع ہوئی جب بہت سے ناری کُرّے ٹھنڈے پڑنے شروع ہوئے - جن میں ایک ہماری زمین بھی ہے. (۱) ’’یہ (جنات) ملاء اعلیٰ کی باتیں نہیں سن سکتے‘‘.
(۲) ’’الا یہ کہ کچھ سن گن لے لے‘‘.
(۳) ’’پس وہ اس کے سامنے ایک پورے انسان کی شکل میں نمودار ہو گیا‘‘. ٹھنڈے ہونے کے اس عمل کے دو نتائج ظاہر ہوئے:ایک یہ کہ جیسے کوئی انگارہ ٹھنڈا ہونے لگے تو اس کی سطح پر راکھ کی تہہ جم جاتی ہے اسی طرح کرۂ ارضی پر بھی ’’خاک‘‘ کی ایک تہہ پیدا ہو گئی جسے زمین کا چھلکا (Crust of the Earth) کہا جاتا ہے اور جو کُل حیاتِ ارضی‘ نباتاتی و حیواناتی کا مادۂ تخلیق ہے - اور دوسرے یہ کہ زمین سے کچھ بخارات نکل کر اس کے گرد جمع ہو گئے جن سے زمین کا غلاف یعنی ’’فضا‘‘ وجود میں آئی. اور پھر اسی فضا میں موجود ہائیڈروجن اور آکسیجن کے امتزاج سے پانی وجود میں آیا جو کُل حیاتِ ارضی کے لئے ’’منبعِ حیات‘‘ ہے ( بفحوائے : وَ جَعَلۡنَا مِنَ الۡمَآءِ کُلَّ شَیۡءٍ حَیٍّ ؕ (۱)الانبیاء:۳۰ ) اور اس نے موسلا دھار بارش کی صورت میں واپس زمین ہی پر برسنا شروع کر دیا. گویا اس سلسلۂ تخلیق کا ایک مرحلہ وہ بھی تھا جس میں زمین پر سوائے پانی کے کچھ اور نہ تھا. اور غالبًا اسی کی جانب اشارہ ہے قرآن حکیم کے ان الفاظِ مبارکہ میں کہ وَّ کَانَ عَرۡشُہٗ عَلَی الۡمَآءِ (۲)(ھود:۷) - اور ادھر چونکہ زمین کی چمڑی (Crust) ٹھنڈے ہونے کے باعث سکڑ بھی گئی تھی لہذا سطح زمین پر نشیب و فراز پیدا ہو گئے. چنانچہ ایک جانب پہاڑ اور ان سے ملحق سطح مرتفع کے مختلف مدارج و مراحل کی صورت میں خشکی پیدا ہوئی تو دوسری جانب نشیبی علاقوں میں بارش کے پانی کے جمع ہونے کے باعث سمندر وجود میں آ گئے اور پھر ساحلی علاقوں میں حیاتِ ارضی کے ’’مادۂ تخلیق‘‘ یعنی مٹی یا تراب‘ اور اس کے ’’منبع حیات‘‘ یعنی پانی کے مابین تعامل سے ’’ارتقاء‘‘ کا وہ مرحلہ وار عمل شروع ہوا‘ جس کی انتہا حضرت آدمؑ نہیں بلکہ صرف حیوانِ آدم (Homo Sapiens) کا (۱) ’’اور ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز بنائی‘‘.
(۲) ’’اور اس کا عرش پانی پر تھا‘‘. ظہور تھا -گویا بقولِ بید ؔلؒ ؎
’’ہر دو عالم خاک شد تا بست نقش آدمی
اے بہارِ نیستی از قدرِ خود ہوشیار باش!‘‘