قرآن حکیم میں سات مقامات پر دہرائے جانے والے قِصّہ آدم و ابلیس کا آخری حصّہ اس اعتبار سے بہت اہمیت کا حامل ہے کہ اس سے عالمِ انسانیت میں خیر و شر اور حق و باطل کے مابین جو کشاکش ؎
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفویؐ سے شرارِ بو لہبی!
کے انداز میں جاری ہے‘ اس کے ایک اہم عامل کی نشاندہی ہوتی ہے!یعنی ابلیس لعین کی آدمؑ اور ان کی ذریت سے بغض و عداوت - اور اس کی بنا پر انسانوں کے اغوا اور اضلال میں ایک طاقتور غیر مرئی قوت کی کارفرمائی.
ابلیس لعین نے اپنی بغاوت اور سرکشی پر راندئہ درگاہِ حق ہو جانے کے بعد اللہ تعالیٰ سے اپنی عمر کے قیامت تک دراز کئے جانے کی درخواست کی‘ جو منظور ہو گئی. تب اس نے نہایت متکبرانہ اور متحدیانہ انداز میں آدمؑ اور اس کی ذُریت کے خلاف اپنی عداوت کا برملا اظہار اور دائمی جنگ کا کھلا اعلان کر دیا. چنانچہ سات مقامات میں سے تین پر تو اس بغض و عداوت کا ذکر اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہوا ہے‘ جیسے
(۱)سورۃ البقرہ میں وَ قُلۡنَا اہۡبِطُوۡا بَعۡضُکُمۡ لِبَعۡضٍ عَدُوٌّ (۱)(آیت ۳۶) کے الفاظ میں‘
(۲) سورۂ طٰہٰ میں ابتداءً فَقُلۡنَا یٰۤـاٰدَمُ اِنَّ ہٰذَا عَدُوٌّ لَّکَ وَ لِزَوۡجِکَ... (۲)(آیت ۱۱۷) کے الفاظ میں اور بعد ازاں بالکل سورۃ البقرہ میں وارد شدہ الفاظ سے مماثل الفاظ میں یعنی قَالَ اہۡبِطَا مِنۡہَا جَمِیۡعًۢا بَعۡضُکُمۡ لِبَعۡضٍ عَدُوٌّ (۳)(آیت ۱۲۳) اور
(۳) سورۂ کہف میں ذریت آدمؑ سے اللہ تعالیٰ کے شکوے کے انداز میں کہ اَفَتَتَّخِذُوۡنَہٗ وَ ذُرِّیَّتَہٗۤ اَوۡلِیَآءَ مِنۡ دُوۡنِیۡ وَ ہُمۡ لَکُمۡ عَدُوٌّ ؕ بِئۡسَ لِلظّٰلِمِیۡنَ بَدَلًا (۴)(آیت ۵۰).
البتہ بقیہ مقامات پر شیطانِ لعین کی جانب سے بھرپور چیلنج کے انداز میں کھلی جنگ کا اعلان سامنے آتا ہے‘ جیسے:
(۱) ’’اور ہم نے حکم دیا کہ اب تم سب یہاں سے اتر جاؤ ، تم ایک دوسرے کے دشمن ہو‘‘.
(۲) ’’چنانچہ ہم نے آدم سے کہا: دیکھو، یہ تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے‘‘.
(۳) ’’فرمایا: تم دونوں (فریق، یعنی انسان اور شیطان) یہاں سے اتر جاؤ ، تم ایک دوسرے کے دشمن ہو گے‘‘.
(۴) ’’اب کیا تم مجھے چھوڑ کر اس کو اور اس کی ذریت کو اپنا سرپرست بناتے ہو حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں؟ بڑا ہی برا بدل ہے جسے ظالم لوگ اختیار کر رہے ہیں‘‘. (۱) سورۂ بنی اسرائیل میں لَاَحۡتَنِکَنَّ ذُرِّیَّتَہٗۤ اِلَّا قَلِیۡلًا (۱)(آیت ۶۲) کے الفاظ میں
(۲) سورۂ ص میں قَالَ فَبِعِزَّتِکَ لَاُغۡوِیَنَّہُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ ﴿ۙ۸۲﴾اِلَّا عِبَادَکَ مِنۡہُمُ الۡمُخۡلَصِیۡنَ ﴿۸۳﴾ (۲)(آیات ۸۲‘۸۳) کے الفاظ میں‘ اور
(۳) سورۃ الحجر میں قَالَ رَبِّ بِمَاۤ اَغۡوَیۡتَنِیۡ لَاُزَیِّنَنَّ لَہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَاُغۡوِیَنَّہُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ ﴿ۙ۳۹﴾اِلَّا عِبَادَکَ مِنۡہُمُ الۡمُخۡلَصِیۡنَ ﴿۴۰﴾ (۳)(آیات ۳۹‘۴۰) کے الفاظ میں‘ -اور سب سے زیادہ مفصل سورۃ الاعراف میں قَالَ فَبِمَاۤ اَغۡوَیۡتَنِیۡ لَاَقۡعُدَنَّ لَہُمۡ صِرَاطَکَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ﴿ۙ۱۶﴾ثُمَّ لَاٰتِیَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَیۡنِ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ مِنۡ خَلۡفِہِمۡ وَ عَنۡ اَیۡمَانِہِمۡ وَ عَنۡ شَمَآئِلِہِمۡ ؕ وَ لَا تَجِدُ اَکۡثَرَہُمۡ شٰکِرِیۡنَ ﴿۱۷﴾ (۴)(آیات ۱۶‘۱۷) کے الفاظ میں!
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ انسان کی شخصیت کے داخلی محاذ پر تو جو معرکہ خیر و شر برپا ہوتا ہے اس کی اساس اس کے اپنے وجود کے دو اجزائے ترکیبی ہیں‘ یعنی ایک جانب اس کا وجودِ حیوانی ہے جو اپنے اُن خالص جبلی تقاضوں (Instincts) اور شہوانی امنگوں (Lusts) کے زیر اثر اسے شر اور سوء کی جانب کھینچتا ہے جنہیں صرف اپنی تسکین (Gratification) (۱) ’’میں اس کی پوری نسل کی بیخ کنی کر ڈالوں گا، بس تھوڑے ہی لوگ مجھ سے بچ سکیں گے‘‘.
(۲) ’’اس نے کہا: تیری عزت کی قسم، میں ان سب لوگوں کو بہکا کر رہوں گا، بجز تیرے ان بندوں کے جنہیں تُو نے ان میں سے خالص کر لیا ہو.‘‘
(۳) ’’وہ بولا:میرے رب، جیسا تو نے مجھے بہکایا اسی طرح اب میں زمین میں ان کے لئے دلفریبیاں پیدا کر کے ان سب کو بہکادوں گا، سوائے تیرے ان بندوں کے جنہیں تو نے ان میں سے خالص کر لیا ہو‘‘.
(۴) ’’بولا: اچھا تو جس طرح تو نے مجھے گمراہی میں مبتلا کیا ہے میں بھی اب تیری سیدھی راہ پر ان انسانوں کی گھات میں لگا رہوں گا. پھر میں آگے اور پیچھے، دائیں اور بائیں، ہر طرف سے ان کو گھیروں گا، اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا‘‘. ہی سے غرض ہوتی ہے‘ قطع نظر اس سے کہ اس کے ذرائع جائز ہوں یا ناجائز‘ بفحوائے اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوۡٓءِ (۱)(یوسف:۵۳) تو دوسری جانب وہ رُوح ہے جو اسے ؏
ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے!
کے انداز میں برائی سے روکتی اور اس پر ملامت کرتی ہے (چنانچہ اس حال میں ’’نَفْسٌ لَوَّامَۃٌ‘‘ کہلاتی ہے) اور اس کے برعکس خیر کی جانب راغب کرتی ہے - لیکن خارجی محاذ پر جو اصل ہنگامۂ کشاکش اور گرمیٔ ستیز خیر و شر کے مابین انسانی معاشرے میں برپا ہے‘ اس کے ضمن میں دو دوداعیانِ خیر ہیں تو دودوہی داعیانِ شر بھی موجود ہیں - ایک ایک مرئی اور محسوس و مشہود یعنی خود انسانوں ہی میں سے داعیان اِلی الخیر اور داعیان اِلی الشر‘ اور ایک ایک غیر مرئی‘ یعنی ایک جانب ملائکہ جو نیکو کاروں کی تقویت کے موجب بنتے ہیں اور دوسری جانب ابلیس لعین اور اس کی ذریت صلبی و معنوی جو شیاطین کا رول اختیار کر کے انسانوں کی گمراہی میں مؤثر کردار ادا کرتے ہیں.
چنانچہ ایک حدیثِ نبویؐ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چونکہ انسان کی حیاتِ دنیوی کو اس کے لئے ایک امتحانی وقفہ قرار دیا ہے - اور اسی لئے اسے اس رزم گاہ خیر و شر میں ؏ ’’درمیانِ قعر دریا تختہ بندم کردۂ !‘‘ کے انداز میں داخل کر دیا ہے‘ لہذا ہر انسان کے ساتھ ایک شیطان کو بھی لگا دیا ہے تاکہ انسان اس کی تمام تر تحریص و ترغیب شر اور جملہ وسوسہ انداز یوں کے علی الرغم توحید نظری و عملی کی صراطِ مستقیم پر ثابت قدم رہ کر اپنے شرفِ انسانیت کا ثبوت فراہم کرے!
ابلیس لعین اور جنات میں سے اس کی ذریت صلبی و معنوی کو انسانوں کے
(۱) ’’نفس تو بدی پر اکساتا ہی ہے‘‘. مقابلے میں ایک سہولت تو یہ حاصل ہے کہ وہ غیر مرئی ہونے کی بنا پر انسان پر وہاں سے حملہ کرتے ہیں جہاں سے انسان انہیں نہیں دیکھ سکتے‘ (بفحوائے اِنَّہٗ یَرٰىکُمۡ ہُوَ وَ قَبِیۡلُہٗ مِنۡ حَیۡثُ لَا تَرَوۡنَہُمۡ (۱)(الاعراف:۲۷) اور دوسری وہ جو حدیثِ نبوی ؐ میں ان الفاظ میں وارد ہوئی ہے کہ اِنَّ الشَّیْطٰنَ یَجْرِیْ مِنَ الْاِنْسَانِ مَجْرَی الدَّمِ یعنی شیطان انسان کے وجود میں خون کے مانند گردش کرتا ہے. اب خواہ اسے ایک استعارے پر محمول کر لیا جائے یعنی اس سے یہ مراد لی جائے کہ چونکہ ان شیاطین جن کو انسانوں کے سینوں میں وسوسہ اندازی کی صلاحیت حاصل ہے‘ (بفحوائے الَّذِیۡ یُوَسۡوِسُ فِیۡ صُدُوۡرِ النَّاسِ (۲)الناس:۵) جس سے وہ انسانی شہوات میں اشتعال پیدا کرتے ہیں جس کا اثر انسان کے پورے وجود پر مترتب ہوتا ہے‘ تو گویا وہ اس طرح انسان کے پورے وجود میں سرایت کر جاتے ہیں ‘ خواہ ظاہری لفظی معنی پر محمول کر لیا جائے نتیجے کے اعتبار سے کوئی فرق واقع نہیں ہوتا. (واضح رہے کہ اپنے مادہ تخلیق یعنی آگ کے لطیف ہونے کی بنا پر جیسے جنات مختلف صورتیں اختیار کر سکتے ہیں‘ اسی طرح ان کا کسی دوسرے ٹھوس جسم میں حلول یا سرایت کر جانا بھی بعید از قیاس نہیں ہے.)
اس کے مقابل ہے وہ تحفظ اور ضمانت جو اللہ تعالیٰ نے ان شیاطین کے اثر و نفوذ کے خلاف انسانوں کو عطا کی ہے. یعنی جو لوگ اخلاص کے ساتھ اللہ کے بندے بن جائیں ان پر شیاطین کا کوئی داؤ یا وار کارگر نہیں ہو سکتا. بلکہ انسانوں میں سے صرف وہ لوگ ان کے ہتھے چڑھتے ہیں جو خود اپنی داخلی شخصیت کے محاذ پر رُوحِ ربّانی کی بجائے نفس امارہ کی اطاعت و اتباع کی روش اختیار کر چکے
(۱) ’’وہ اور اس کے ساتھی تمہیں ایسی جگہ سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے‘‘.
(۲) ’’جو لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے‘‘. ہوں. جیسے کہ سورۃ الحجر میں وضاحت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آغاز ہی میں ابلیس سے کہہ دیا تھا کہ اِنَّ عِبَادِیۡ لَیۡسَ لَکَ عَلَیۡہِمۡ سُلۡطٰنٌ اِلَّا مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الۡغٰوِیۡنَ ﴿۴۲﴾ (۱)(آیت ۴۲) (سورۂ بنی اسرائیل کی آیت ۶۵ میں بھی یہی بات دہرائی گئی ہے.) مزید برآں دو بار یہ بھی مذکور ہے کہ خود شیطانِ لعین نے بھی آدمؑ اور ان کی ذریت کے خلاف اعلانِ جنگ کرتے ہوئے تسلیم کر لیا تھا کہ اللہ کے ان مخلص بندوں پر‘ جو اپنے اخلاص للہ کے قبول کئے جانے کی بنا پر ’’مخلص‘‘ ہو جائیں گے ان پر میرا کوئی داؤ یا وار کارگر نہیں ہو گا! (سورۂ ص:۸۳‘ اور سورۃ الحجر :۴۰).
نسل انسانی کی تاریخ میں جب تک انفرادیت کا پلڑا اجتماعیت پر بھاری رہا‘ خیر و شر کی یہ کشاکش بھی افراد ہی کے داخلی اورخارجی محاذوں پر جاری رہی - لیکن اب سے دو ڈھائی سو برس قبل جب ایک جانب انسان میں ’’خود شناسی و خود نگری‘‘ یعنی اپنے حقوق کا احساس پیدا ہوا‘ اور دوسری جانب مشینوں کی ایجاد نے صنعتی انقلاب کی داغ بیل ڈالی‘ اور تیسری طرف سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدانوں میں برق رفتار ترقی کا آغاز ہوا‘ جس کے نتیجے میں آج یہ صورت ہے کہ بقولِ علامہ اقبال ؎
عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے!
تو شیطان لعین نے بھی اپنی عظیم منصوبہ بندی کے ساتھ انسانوں ہی میں سے اپنے ہتھیائے ہوئے ایجنٹوں کے ذریعے سماجی‘ معاشی اور سیاسی تینوں میدانوں میں بے اعتدالی‘ بے راہ روی‘ اور فکری و عملی گمراہی کی صورت میں شر کا اثر و نفوذ حیاتِ اجتماعی کے دور دراز گوشوں تک پہنچا دیا - چنانچہ واقعہ یہ ہے کہ اِس وقت عالمِ انسانیت میں
(۱) ’’بے شک جو میرے حقیقی بندے ہیں ان پر تیرا بس نہ چلے گا، لیکن (تیرا بس تو) صرف ان بہکے ہوئے لوگوں پر ہی چلے گا جو تیری پیروی کریں‘‘. ؏ ’’کون سیاہی گھول رہا ہے وقت کے بہتے دریا میں!‘‘ کے مصداق جو شخصیت ہر نوع کے شر اور بدی کا زہر گھولنے کی سب سے بڑھ کر ذمہ دار ہے‘ وہ ابلیس ہی کی ہے‘ جسے مسیحی مذہبی لٹریچر میں لوسیفر (Lucifer) کا نام دیا گیا ہے‘ اورجس کے ضمن میں حال ہی میں ولیم گائی کر (William Guy Kerr) نے اپنی تہلکہ آمیز تالیف "PAWNS IN THE GAME" میں یہ چشم کشا انکشافات کئے ہیں کہ اس نے انسانوں میں اپنی شیطنت کا جال اولاً سوا دو سو برس قبل "ORDER OF THE ILLUMINATI" کے ذریعے پھیلایا‘ پھر FREE MASONRY اور اس طرح کی دوسری تنظیموں کے ذریعے آگے بڑھایا - اور بالآخر اب سے سو سال قبل"ELDERS OF THE ZION" کے حوالے کر دیا‘ جنہوں نے پہلے صرف "WASP" (White Anglo-Saxon Protestants) کے ذریعے اپنے مقاصد (اعلانِ بالفور ۱۹۱۷ء‘ اور قیامِ اسرائیل ۱۹۴۸ء) حاصل کئے - لیکن اب پوری عیسائی دُنیا کو اپنے فتراک کا نخچیر بنا کر‘ نیو ورلڈ آرڈر کے عنوان سے پورے کرۂ ارضی پر بے حیائی و فحاشی‘ کفر و معصیت‘ اور شر و شیطنت کے فیصلہ کن غلبے کی جانب پیش قدمی کر رہے ہیں - یہ دوسری بات ہے کہ وَ مَکَرُوۡا وَ مَکَرَ اللّٰہُ ؕ وَ اللّٰہُ خَیۡرُ الۡمٰکِرِیۡنَ (۱)(آل عمران:۵۴) کے مصداق آخری فتح حق و صداقت ہی کی ہو گی. اور خیر و شر کے مابین ہونے والے اس آخری عظیم معرکے میں‘ جس کا نام بائبل میں ARMAGEDDON اور حدیث نبویؐ میں ’’اَلْمَلْحَمَۃُ الْعُظْمٰی‘‘ ہے‘ اور جس کی کوئی جھلک علامہ اقبال نے بھی دیکھ لی تھی جب انہوں نے فرمایا تھا کہ : (۱) ’’اور انہوں نے خفیہ تدبیریں کیں تو (جواب میں) اللہ نے بھی اپنی خفیہ تدبیر کی، اور ایسی تدبیروں میں اللہ سب سے بڑھ کر ہے‘‘.
دُنیا کو ہے پھر معرکۂ رُوح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا
اللہ کو پامردیٔ مؤمن پہ بھروسہ
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا!
اس میں بالآخر جَآءَ الۡحَقُّ وَ زَہَقَ الۡبَاطِلُ ؕ اِنَّ الۡبَاطِلَ کَانَ زَہُوۡقًا (۱) (بنی اسرائیل:۸۱) کے مصداق حق ہی غالب آئے گا!