تقرب بالفرائض اور تقرب بالنوافل میں جو نسبت ہے اس کو اچھی طرح سمجھ لیجیے. اس کو میں دو مثالوں سے آپ کو سمجھانے کی کوشش کروں گا کہ افضل طریقہ جو ہے وہ تقرب بالفرائض ہے‘ اگرچہ اعلیٰ طریقہ اور بلند تر منزل جو ہے وہ تقرب بالنوافل ہے. ہمارا مجمع علیہ عقیدہ ہے کہ افضل ترین ایمان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ہے. لیکن ایک صحبت نبوی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام میں ایمان کی گفتگو شروع ہوئی. نبی اکرمﷺ نے صحابہؓ سے سوال کیا کہ ’’تمہارے نزدیک سب سے زیادہ عجیب ایمان کس کا ہے؟
‘‘یعنی سب سے زیادہ دلکش‘ دل آویز اور پیارا ایمان کس کا ہے؟ صحابہ کرامؓ نے خوب غور کر کے عرض کیا کہ ’’ملائکہ کا ہے!‘‘ آنجناب ﷺ نے فرمایا: ’’ملائکہ کیسے ایمان نہیں لائیں گے وہ تو اللہ کے حضور میں ہیں‘ اللہ کا وجود اُن کے لیے غیب نہیں‘‘. صحابہؓ نے پھر سوچا اور ترمیم کر کے عرض کیا کہ ’’انبیاء کا ہے!‘‘ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ’’وہ کیسے ایمان نہیں لائیں گے‘ ان پر تو وحی نازل ہوتی ہے‘ اللہ کے فرشتے ان کے پاس آتے جاتے ہیں اور اللہ کا پیغام لاتے ہیں!‘‘ اب صحابہ کرامؓ نے جھجکتے جھجکتے کہا کہ ’’پھرہمارا ہے!‘‘ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’تم کیسے ایمان نہیں لاؤ گے‘ جبکہ تم نے مجھے دیکھا ہے‘ میری صحبت سے فیض یاب ہوئے ہو! میرے نزدیک خوبصورت ترین ایمان‘ دلکش ترین اور دل آویز ترین ایمان ہمارے اُن بھائیوں کا ہو گا جو ہمارے بعد آئیں گے‘انہیں اللہ کی کتاب ملے گی اور وہ اس کے مشمولات پر ایمان لائیں گے. ان کا ایمان اَعجب یعنی حسین ترین‘ دلکش ترین اور خوبصورت ترین ہے‘‘. یہ حدیث مشکوٰۃ میں ہے. میں نے اس کی تشریح بیان کی ہے. حدیث کا متن بھی ملاحظہ کر لیجیے:
عَنْ عَمْرٍو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ : اَیُّ الْخَلْقِ اَعْجَبُ اِلَـیْکُمْ اِیْمَانًا؟ قَالُوا: الْمَلَائِکَۃُ ‘ قَالَ : وَمَا لَھُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ وَھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ قَالُوْا : فَالنَّبِیُّوْنَ ‘ قَالَ: وَمَالَـھُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ وَالْوَحْیُ یَنْزِلُ عَلَیْھِمْ قَالُوْا : فَنَحْنُ‘ قَالَ: وَمَا لَــکُمْ لاَ تُؤْمِنُوْنَ وَاَنَا بَیْنَ اَظْھُرِکُمْ قَالَ: فَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ : اِنَّ اَعْجَبَ الْخَلْقِ اِلَیَّ اِیْمَانًا لَـقَوْمٌ یَـکُوْنُوْنَ مِنْ بَعْدِیْ یَجِدُوْنَ صُحُفًا فِیْھَا کِتَابٌ یُؤْمِنُوْنَ بِمَا فِیْھَا (۱)
اس حدیث کے مطالعے سے یہ بات سامنے آئی کہ ایمان کے افضل ہونے کے علاوہ اس کا ایک پہلو اَعْجَبْ ہونا بھی ہے.یہ بات تو عام طور پر ہم سب ہی جانتے ہیں کہ افضلیت و فضیلت کے اعتبار سے اُمت میں سے کسی بڑے سے بڑے ولی کا ایمان بھی اُس صحابی سے افضل نہیں ہو سکتا جس نے حالت ایمان میں نبی اکرمﷺ کی صحبت مبارکہ چاہے تھوڑی دیر کے لیے اٹھائی ہو. مشہور محدث‘ فقیہہ‘ عابد و زاہد اور مجاہد
(۱) رواہ البیھقی فی دلائل النبوۃ‘ بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح‘ کتاب المناقب‘ باب ثواب ھذہ الامۃ. بالسیف حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ علیہ سے کسی نے دریافت کیا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ علیہ میں سے ان کے نزدیک افضل کون ہے؟ حضرت عبداللہ بن مبارکؒ کاچہرہ اس سوال پر تمتما اُٹھا اور انہوں نے فرمایا:’’خدا کی قسم! جس گھوڑے پر بیٹھ کر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ کے زمانے میں جہاد کیا تھا اس گھوڑے کے مُنہ سے نکلنے والا جھاگ بھی حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ سے افضل تھا‘‘. پھر شخصیت کے تقابل کا کیا سوال!
لیکن اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اَعجب ایمان (خوبصورت ترین ایمان‘ دل آویز اور حسین ترین ایمان) اُن خوش نصیبوں کا ہو گا جو نبی اکرمﷺ کی رفیق اعلیٰ کی طرف مراجعت کے بعد آپؐ کے دورِ سعید اور آپؐ کی صحبت مبارکہ سے محروم ہونے کے باوجود کتاب اللہ پر ایمان لانے کے ذریعے سے آپؐ کی رسالت پر ایمان لائیں گے اور دین کی جملہ باتوں کی تصدیق کریں گے اور ان پر عمل کی کوشش کریں گے. اب اس حوالے سے اس معاملے کو سمجھئے کہ افضل جو ہے وہ تقرب بالفرائض ہے اور اَعجب جو ہے وہ تقرب بالنوافل ہے.
اسی بات کو اب دوسری مثال سے سمجھ لیجیے‘ اس سے بات اچھی طرح واضح ہو جائے گی. کسی دو منزلہ عمارت کا ذہن میں خیال جمایئے. بلند تر منزل کون سی ہے؟ یقینا دوسری منزل . جبکہ اہم تر کون سی ہے؟ یقینا آپ کا جواب ہو گا‘ پہلی منزل. پہلی منزل کا تصور تو دوسری منزل کے بغیر ممکن ہے‘ لیکن دوسری منزل کا کوئی تصور پہلی منزل کے بغیر ممکن نہیں ہے. تعمیر کا سارا دار و مدار پہلی منزل کی تعمیر پر ہے‘ اگرچہ وہ رہے گی نیچے. بلند تر منزل بہرحال دوسری منزل ہی ہو گی. یہ ہے تقرب بالنوافل کا وہ مقام جس کے بارے میں فرمایا گیا:’’اور جب میرا کوئی بندہ نوافل کے ذریعے میرا تقرب چاہتا ہے تو میں بھی اس کو محبوب رکھتا ہوں‘ اور جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو میں اُس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے‘ اور اُس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے ‘اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پائوں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے‘ اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اُسے لازماً دیتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ چاہتا ہے تو اُسے پناہ بھی لازماً دیتا ہوں‘‘. یہ ہے بلند تر اور اعلیٰ منزل. اونچی یقینا یہی ہے.
لیکن پہلی منزل یعنی تقرب بالفرائض والی منزل قائم کیے بغیر اگرکوئی دوسری منزل کے ساز وسامان کی فراہمی میں ہمہ تن مصروف ہے‘ اُسی کے لیے دوڑ دھوپ ہے‘ تو میرے نزدیک یہ ایک فضول اور احمقانہ فعل ہے. پہلی منزل کے بغیر دوسری منزل کی تعمیر ناممکنات میں سے ہے‘ کوئی صحیح الدماغ شخص اس بارے میں سوچ ہی نہیں سکتا. لہذا اوّلیت پہلی منزل ہی کو حاصل ہے اور اللہ کو محبوب ترین یہی منزل ہے: وَمَا تَقَرَّبَ اِلَیَّ عَبْدِیْ بِشَیْئٍ اَحَبَّ اِلَیَّ مِمَّا افْتَـرَضْتُ عَلَـیْہِ ’’اور میرا بندہ میری کسی محبوب شے کے ذریعے میرا قرب حاصل کرنا چاہے تو میں نے اس پر جو کچھ فرض کیا ہے اس سے بڑھ کر کسی اور ذریعے سے حاصل نہیں کر سکتا‘‘.
تصوف کے بعض مسائل کے سلسلے میں ہمارا جو موقف ہے وہ متذکرہ بالا حدیث کی روشنی میں واضح ہو گیا. البتہ اس ضمن میں ایک مزید وضاحت بہت ضروری ہے.