اب سوال یہ ہے کہ ان فرائض دینی سے عہدہ برآ ہونا کیا واقعتا انفرادی طور پر ممکن ہے؟ اس سوال پر نظری اور عملی دونوں اعتبارات سے غور کیجیے. تقرب بالنوافل یقینا انفرادی طور پر ہی ہو گا‘ اس میں اجتماعیت نہیں ہو گی. احناف کے نزدیک نفل نماز باجماعت (استثنائی حالات مثلاً تراویح وغیرہ کے علاوہ) پڑھنا مکروہ ہے. لیکن غور کیجیے کہ کیا تقرب بالفرائض انفرادی حیثیت میں ممکن ہے؟ فریضہ ٔ شہادت علی الناس کی ادائیگی اور اقامت ِ دین کی جدوجہد انفرادی اعتبار سے ممکن ہے؟
(۱) اس مسئلے کی شرح و بسط سے تفہیم کے لیے ڈاکٹر صاحب کی تالیفات ’’نبی اکرمﷺ کا مقصد ِ بعثت‘‘ اور ’’دعوت الی اللہ‘‘ کا مطالعہ ان شاء اللہ مفید رہے گا. (مرتب) اگر فی الواقع تقرب بالفرائض انفرادی طور پر ممکن ہوتا اور اگر دین کا قیام و اظہار‘ غلبہ اور نفاذ انفرادی طور پر ممکن ہوتا تو اللہ کے جلیل القدر پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں ضرورہو جاتا جن کے ساتھ ایک دوسرے پیغمبر حضرت ہارون علیہ السلام بھی موجود تھے. لیکن اُمت نے ان کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا اور برملا کہہ دیا کہ ہم قتال نہیں کریں گے. حالانکہ حضرت موسٰی ؑ نے ان کو بشارت دی تھی کہ ’’ارضِ مقدس میں داخل ہو جاؤ جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دی ہے. پیچھے نہ ہٹو‘ ورنہ ناکام و نامراد پلٹو گے‘‘. لیکن ان کا طرزِ عمل یہ تھا کہ :
قَالُوۡا یٰمُوۡسٰۤی اِنَّ فِیۡہَا قَوۡمًا جَبَّارِیۡنَ ٭ۖ وَ اِنَّا لَنۡ نَّدۡخُلَہَا حَتّٰی یَخۡرُجُوۡا مِنۡہَا ۚ فَاِنۡ یَّخۡرُجُوۡا مِنۡہَا فَاِنَّا دٰخِلُوۡنَ ﴿۲۲﴾ (المائدۃ)
’’انہوں نے کہا : اے موسیٰ! وہاں تو زبردست لوگ رہتے ہیں‘ ہاں اگر وہ وہاں سے نکل گئے تو ہم داخل ہونے کے لیے تیار ہیں.‘‘
ان میں کے دو مؤمنین صادقین نے ان کو اللہ پر توکل رکھنے کی تلقین کی اور فتح کی یقین دہانی کرائی‘ لیکن قوم ٹس سے مس نہیں ہوئی اور اللہ کے پیغمبر ؑ کے روبروبڑی ڈھٹائی کا مظاہرہ کیا.
قَالُوۡا یٰمُوۡسٰۤی اِنَّا لَنۡ نَّدۡخُلَہَاۤ اَبَدًا مَّا دَامُوۡا فِیۡہَا فَاذۡہَبۡ اَنۡتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا ہٰہُنَا قٰعِدُوۡنَ ﴿۲۴﴾ (المائدۃ)
’’انہوں نے کہا: اے موسیٰ !ہم تو وہاں ہرگز اور کبھی نہیں جائیں گے جب تک وہ وہاں موجود ہیں. بس تم اور تمہارا ربّ دونوں جاؤ اور لڑو‘ ہم تو یہاں بیٹھے ہیں.‘‘
حضرت موسیٰ علیہ السلام قوم کے ڈھٹائی پر مبنی اس کورے جواب اور نافرمانی کے اس طرزِ عمل سے اتنے آزردہ اور دل گرفتہ ہوئے کہ دعا کی :
قَالَ رَبِّ اِنِّیۡ لَاۤ اَمۡلِکُ اِلَّا نَفۡسِیۡ وَ اَخِیۡ فَافۡرُقۡ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَ الۡقَوۡمِ الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿۲۵﴾ (المائدۃ)
’’(حضرت موسٰی ؑ نے) کہا: اے میرے ربّ! میرے اختیار میں کوئی نہیں مگر میری اپنی ذات اور میرا بھائی‘ پس تو ہمیں ان نافرمان لوگوں سے الگ کر دے‘‘. رسول اپنی مرضی سے اپنی قوم سے علیحدہ نہیں ہوسکتا ‘ اس لیے حضرت موسٰی ؑ اللہ تعالیٰ سے التجا کر رہے ہیں کہ قوم کے اور اُن کے درمیان تفریق فرما دے . قوم کے جہاد و قتال سے انکار پر حضرت موسٰی ؑ کے رنج و غم کا یہ عالَم ہے کہ وہ بیزاری کا اس بے چارگی کے ساتھ اظہار فرما رہے ہیں. یہ ایک طرف قوم کی بدبختی اور بدنصیبی کی علامت ہے تو دوسری طرت حضرت موسٰی ؑ کی حمیت و غیرتِ دینی کی نشانی ہے. اسی حمیت دینی کے جذبے سے غضب ناک ہو کر حضرت یونس علیہ السلام یہ خطا کر بیٹھے تھے کہ بغیر اللہ کی اجازت کے اپنی قوم کو چھوڑ کر چلے گئے تھے. یہاں اللہ کا جلیل القدر رسول دعا کر رہا ہے کہ اے اللہ! میں ان کے ساتھ رہنا نہیں چاہتا. مجھے اجازت دے دے کہ میں ان سے علیحدہ ہو جاؤں! لیکن اللہ کی طرف سے حکم ہوا کہ نہیں‘ آپ کو ان کے ساتھ ہی رہنا ہو گا. یہ صحرائے تیہہ میں بھٹکیں گے اور آپ ساتھ رہیں گے.
بنی اسرائیل کی ڈھٹائی اور نافرمانی کا نتیجہ یہ نکلا کہ تاریخ کا عمل وہیں رک گیا. مشیتِ خداوندی میں ارضِ مقدس ان کو دی جانی طے کی جا چکی تھی‘لیکن انہوں نے جہاد و قتال سے انکار کیا تو اس کی ان کو یہ سزا ملی:
قَالَ فَاِنَّہَا مُحَرَّمَۃٌ عَلَیۡہِمۡ اَرۡبَعِیۡنَ سَنَۃً ۚ یَتِیۡہُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ ؕ فَلَا تَاۡسَ عَلَی الۡقَوۡمِ الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿٪۲۶﴾ (المائدۃ)
’’(اللہ نے) فرمایا: اچھا تو یہ ملک چالیس سال تک ان پر حرام ہے‘ یہ زمین میں مارے مارے پھریں گے. ان نافرمانوں پر ہرگز ترس نہ کھاؤ.‘‘
چنانچہ پوری قوم چالیس سال تک صحرائے سینا میں ٹھوکریں کھاتی رہی.اسی صحرا نوردی میں حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کا انتقال ہو گیا. اللہ کے دو جلیل القدر پیغمبر جو بیک وقت موجود تھے (ایک اکیلا دو گیارہ) وہ قوم کے کورے جواب سے آزردہ اوردل گرفتہ ہو گئے اور تاریخ کا دھارا چالیس سال کے لیے رک گیا. اس طرح یہ ثابت ہو گیا کہ اقامت دین کا کام اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ جماعت و تنظیم موجودنہ ہو. اگر یہ کام انفرادی طور پر ممکن ہوتا تو ان دو جلیل القدر انبیاء کے ہاتھوں ضرور انجام پاتا.