آج ہمارا معاشرہ اس امر کا شدید محتاج ہے کہ اسے جھنجوڑا جائے‘ اس میں آخرت کا خوف پیدا کیا جائے‘ اس کو پکارا جائے کہ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا قُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَ اَہۡلِیۡکُمۡ نَارًا (التحریم:۶) ’’اے ایمان والو!بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو (جہنم کی) آگ سے‘‘. اس میں توبہ کی ایک عمومی منادی کی جائے کہ اللہ کے بندو! باز آؤ معصیت اور نافرمانیوں سے‘ باز آؤ حرام خوریوں سے‘ باز آؤ ہیرا پھیریوں سے‘ باز آؤ رشوت دینے اور رشوت خوری سے‘ باز آؤ ملاوٹ سے اور ذخیرہ اندوزی سے‘ باز آؤ سودی کاروبار سے‘ کم تولنے اور کم ناپنے سے! اپنی تمام بداعمالیوں اور بے عملیوں سے توبہ کر کے اپنے ایمان کی تجدید کرو. اپنے ربّ کے ساتھ از سر نو عہد کرو کہ اے اللہ! ہم تیرے مخلص بندے بن کر خود بھی دین کے مطابق زندگی بسر کرنے کی کوشش کریں گے اور تیرے دین کے داعی بن کر معاشرے کو بھی عبادتِ ربّ اور توبہ و انابت الی اللہ کی دعوت دیں گے. ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا تُوۡبُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ تَوۡبَۃً نَّصُوۡحًا ؕ عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یُّکَفِّرَ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ… (التحریم:۸)
’’اے ایمان والو!اللہ کے حضور توبہ کرو‘ خالص توبہ. بعید نہیں کہ (اس توبہ کی بدولت) اللہ تم سے تمہاری برائیاں دُور فرما دے…‘‘
توبہ کا یہ عمل اگر عوام و خواص میں ایک ہمہ گیر اور اجتماعی سطح پر نہیں ہوتا تو جان لیجیے کہ اس دنیا میں بھی عذابِ الٰہی سے سابقہ پیش آ کر رہے گا اور آخرت میں بھی. اجتماعی توبہ سے عذابِ خداوندی ٹل جاتا ہے . قرآن کریم میں مذکور ہے کہ حضرت یونس علیہ السلام کی قوم پر عذابِ الٰہی کے آثار شروع ہو گئے تھے‘ لیکن یہ عذاب ان کی اجتماعی توبہ سے ٹل گیا تھا.
آج داخلی اور خارجی طور پر ہم جن حالات سے دوچار ہیں یہ دراصل تنبیہہ خداوندی ہے. یہ اور بات ہے کہ ہم اس سے غافل ہیں. اگر یہ تغافل اسی طرح جاری رہا تو ہم پر عذابِ الٰہی کا کوڑا برس سکتا ہے. اس وقت ہم مخلصانہ اجتماعی توبہ کے محتاج ہیں‘ اور یہی عمل ہم کو اللہ کی پکڑ سے بچا سکتا ہے. بقول جگر مراد آبادی : ؎
چمن کے مالی اگر بنا لیں موافق اپنا شعار اب بھی
چمن میں آ سکتی ہے پلٹ کر چمن سے روٹھی بہار اب بھی!
اس بات کو بھی اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ جب کسی اُمت میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے تو اس بگڑے ہوئے معاشرے میں تین طرح کے طبقات پیدا ہو جایا کرتے ہیں. ایک طبقہ وہ ہوتا ہے جو بگاڑ میں بہت آگے نکل جاتا ہے. دوسرا طبقہ ان لوگوں کا ہوتا ہے جو بگاڑ سے خود تو بچے ہوتے ہیں لیکن دوسروں کو روکتے نہیں‘ ان کو نصیحت کرنے میں تغافل شعاری اختیار کرتے ہیں. جبکہ تیسرا طبقہ وہ ہوتا ہے جو خود بھی بگاڑ سے مجتنب رہتا ہے اور لوگوں کو روکنے کے لیے مواعظ و نصائح کرتا ہے اور اصلاحِ احوال کی سعی و کوشش میں لگا رہتا ہے. اللہ کی سنت یہ ہے کہ یہ تیسر اطبقہ عذابِ الٰہی سے بچا لیا جاتا ہے‘ اور اگر دنیا میں وہ کہیں اس کی لپیٹ میں بھی آ جائے تو آخرت میں وہ فوز و فلاح سے سرفراز کیا جاتا ہے اور آخرت میں کامیابی اس کے قدم چومتی ہے.