۱۹۶۷ء میں جب میں شعوری طور پر اس نتیجہ پر پہنچا کہ اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے ایک جماعت ناگزیر ہے تو یہ بھی عزم کر لیا تھا کہ اس مقصد کے لیے جماعت بنانے کی کوشش کروں گا. اُس وقت میں نے دعوت رجوع الی القرآن کا کام تنہا شروع کیا تھا. اللہ کے فضل سے ۱۹۷۲ء میں وہ پہلا مرحلہ آ گیا کہ دعوت رجوع الی القرآن کے لیے مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کا قیام عمل میں آیا. اس موقع پر میں نے ’’میثاق‘‘ میں لکھا تھا کہ یہ وہ جماعت نہیں ہے جو میری اصل منزل ہے. یہ عبوری دَور اور ابتدائی مرحلے کا معاملہ ہے.
اس کے بعد ۱۹۷۵ء میں میری دعوت پر تنظیم اسلامی قائم ہوئی.اس تنظیم کی (۱) صحیح مسلم،کتاب الامارۃ،باب وجوب الوفاءبیعۃ الخلفاءالاوّل فالاوّل. تشکیل میں ہم نے دستوری‘ قانونی اور جمہوری اصولوں کو پیش نظر نہیں رکھا‘ جو ہمارے نزدیک مغرب سے درآمد ہوئے ہیں‘ بلکہ ان کو بالکل چھوڑ کر ہم نے اس ہیئت ِ اجتماعیہ کے لیے نظامِ بیعت کے اصول اور طریقے کو اختیار کیا‘ جو قرآن مجید اور سنت ِ رسول کی اصطلاح ہے. ہمارے اسلاف کا طریقہ یہی رہا ہے اور ہماری ماضی کی تمام دینی تحریکوں میں بھی یہی نظام اختیار کیا جاتا رہا ہے. تزکیۂ نفس اور اصلاحِ اعمال کے لیے بھی بیعت ہوتی ہے‘ جو ’’بیعت ِ ارشاد‘‘ کہلاتی ہے اور جہاد فی سبیل اللہ کے لیے جو بھی تحریکیں اٹھی ہیں وہ بھی بیعت کے نظام پر اٹھی ہیں. برعظیم پاک و ہند میں اصل طریق محمدی اور سلوک محمدی(علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) کا جب سید احمد بریلویؒ نے احیاء کیا تھا تو وہ بیعت ہی کی بنیاد پر کیا تھا. ہم کسی جزو میں بھی مغرب کی تقلید نہیں کرنا چاہتے. ہم اُسی طریقہ کو ترجیح دیتے ہیں اور اُسی کو افضل اور باعث ِ خیر سمجھتے ہیں جو قرآن و سنت سے ماخوذ ہو اور جس پر ہمارے سلف صالحین گامزن رہے ہوں. اسی لیے ہم نے باہر سے درآمد شدہ جمہوری و دستوری طریقۂ تنظیم اختیار نہیں کیا‘ بلکہ طریقۂ بیعت اختیار کیا ہے اور اَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ کی قرآنی ہدایت کو اپنا رہنما اصول بنایا ہے.ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بھی فرمانِ نبویؐ عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ کی تعمیل ہے اور سنت سے ماخوذ طریق تنظیم کو اختیار کرنے ہی میں ہماری فوز و فلاح ہے.
میں نے اپنی استعداد و استطاعت کی حد تک آپ کو آپ کی دینی و ملی ذمہ داریوں سے آگاہ کرنے کی امکانی کوشش کی ہے. اب یہ کام آپ کا ہے کہ آپ سوچیں ‘ غور کریں‘ مطالعہ کریں. کوئی اشکال ہو‘ کوئی الجھن ہو‘کوئی وضاحت مطلوب ہو تو ہم حاضر ہیں. کوئی بات غلط معلوم ہوئی ہو تو اس کی غلطی ہم پر واضح کریں. ان سب کے لیے ہمارا سینہ کشادہ ہے. لیکن اگر معاملہ یہ ہو کہ بات سمجھ میں آ گئی ہے کہ حق یہی ہے‘ قرآن مجید کے حوالے سے بھی صحیح بات یہی ہے‘ سنت ِ رسول اللہﷺ کے حوالے سے بھی صحیح بات یہی ہے‘ سلوک و طریقت کے حوالے سے بھی صحیح بات یہی ہے‘ تقرب بالفرائض کے حوالے سے بھی صحیح بات یہی ہے‘ ازروئے عقل و منطق بھی صحیح بات یہی ہے‘ تو پھر اس سے دُور رہنا‘ اس سے کنارہ کش رہنا‘ اس سے دامن بچا بچا کر نکلنا میرے نزدیک بہت بڑا جرم ہے. میں آپ کی نصح و خیر خواہی کے پیش نظر آپ کو خبردار (warn) کر دینا چاہتا ہوں کہ یہ سب کچھ معلوم ہونے کے بعد آپ کی ذمہ داری بہت بڑھ گئی ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو صحیح رخ پر سوچنے اور غور و فکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور جس فیصلے تک آپ پہنچیں اس پر عزم بالجزم کے ساتھ پیش رفت کے لیے آپ کی نصرت فرمائے! اللہ تعالیٰ اسے آپ کے حق میں بھی مبارک کرے اور میرے حق میں بھی بابرکت بنائے.آمین!
اقول قولی ھذا واستغفر اللہ لی ولَـکم ولسائر المسلمین والمسلمات