اب ذرا اپنی توجہ کو دوبارہ مرتکز فرما لیجئے صحیح مسلمؒ کی اُن دو روایات کی جانب جن میں نہی عن المنکر یعنی منکرات اور سیِّئات کے سدِّ باب کا تاکیدی حکم بھی وارد ہوا ہے اور اس کے تین مراتب و مدارج کا بھی ذکر ہے. ان دونوں حدیثوں کا ترجمہ حسبِ ذیل ہے: (۱) ’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے جو کوئی کسی بُرائی کو دیکھے اُس کا فرض ہے کہ اسے ہاتھ سے (یعنی طاقت سے) روک دے‘ اور اگر اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو زبان سے (منع کرے) اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ پاتا ہو تو (کم از کم) دل سے (نفرت کرے) اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے!‘‘
(۲) ’’حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ مجھ سے پہلے کوئی ایسا نبی نہیں گزرا جسے اللہ نے کسی اُمت میں مبعوث فرمایا ہو اور اس میں اس کے صحابی اور حواری پیدا نہ فرمائے ہوں جو اس کی سنت کو مضبوطی سے تھامتے تھے اور اس کے حکم کی پیروی کرتے تھے پھر (ہمیشہ ایسا ہوا کہ) ان کے بعد ایسے ناخلف لوگ پیدا ہوجاتے تھے جو کہتے وہ تھے جو کرتے نہ تھے اور کرتے وہ تھے جس کا انہیں حکم نہیں ہوتا تھا. تو جس کسی نے ایسے لوگوں کے ساتھ ہاتھ سے جہاد کیا وہ مومن ہے‘ اور جس نے زبان سے جہاد کیا وہ مومن ہے اور جس نے دل سے جہاد کیا وہ مومن ہے اوراس کے بعد تو ایمان ایک رائی کے دانے کے برابر بھی موجود نہیں ہے!‘‘
اب یہ امر تو ایسا ظاہر و باہر ہے کہ جس کے بارے میں کسی صاحبِ ایمان کو ذرہ برابر شک و شبہ نہیں ہو سکتا کہ آنحضور ﷺ نے خود اِن تینوں درجوں میں سے بلند ترین ہی کو اختیار فرمایا اور طاقت ہی کے ذریعے منکرات اور سیّئات کا فوری استیصال بھی کیا اور آئندہ کے لیے سدّباب بھی فرمایا‘ لیکن سوال یہ ہے کہ آنحضور ﷺ نے طاقت کا یہ استعمال کس طریق پر کیا؟
اس سلسلے میں یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ حضورﷺ نے طاقت کا استعمال اس طرح نہیں کیا کہ جب آپؐ نے دعوت شروع کی تو بیس پچیس سعید روحیں آپؐ پر ایمان لے آئی تھیں‘ ان کا ایک چھوٹا سا جتھہ بناتے اور انہیں حکم دیتے کہ رات کی تاریکی میں چھپ چھپا کر جاؤ اور کعبہ شریف میں رکھے ہوئے سارے بُت توڑ دو. ذرا غور فرمائیے کہ حضورﷺ ایسا کر سکتے تھے یا نہیں؟ -یقینا کر سکتے تھے اور عملاً یہ بالکل ممکن تھااس لیے کہ وہاں کعبہ کی حفاظت کرنے کے لیے کوئی مسلح پہرہ نہیں ہوتا تھا. ایک مرتبہ جا کر صحابہ کرامؓ تمام بتوں کو توڑ سکتے تھے. یہ مکہ میں سب سے بڑا منکرتھا کہ نہیں؟ لیکن حضور ﷺ نے اسے برداشت کیا. کیوں کیا؟ اس لیے کہ صحیح طریق کار یہ ہے کہ پہلے ایک معتدبہ افراد کی ایک جمعیت فراہم کی جائے. فدائین اور تربیت یافتہ جاں نثاروں کی ایک جماعت تشکیل دی جائے. گویا ایک طاقت فراہم کی جائے. یہاں تربیت سے مراد عسکری تربیت نہ لیجئے گا. اس سے مراد ہے روحانی و اخلاقی تربیت جس کے لیے ہمارے دین کی اصطلاح ہے تزکیہ. ایک کام کرنے کے بعد اسے برقرار رکھنا اصل کام ہے. ایک مرتبہ کعبہ کے تمام بتوں کو توڑ دینا اصل کام نہیں ہے. توڑنے کے بعد توحید کا نظام برقرار رہے اور یہ کام سرانجام دینے والی طاقت قائم رہے. جب تک یہ شکل پیدا نہیں ہو گئی جناب محمد رسول اللہ ﷺ نے کوئی اقدام نہیں فرمایا. توحید کی بذریعہ قرآن زبانی دعوت و تبلیغ فرمائی. جو لوگ ایمان لائے انہیں منظم کیا. ان کی تربیت کی‘ ان کا تزکیہ فرمایا. ان میں قربانی اور ایثار کا مادہ پیدا کیا. ان میں دین کے لیے تن من دھن لگا دینے کا ایک عزمِ مصمَّم پیدا کیا.
پھر ان کے اندر ایک ڈسپلن پیدا کیا کہ جو حکم دیا جائے مانیں. چنانچہ قریباً بارہ برس تک مکہ میں نبی اکرم ﷺ کا حکم یہ تھا کہ مسلمانو! تمہارے ٹکڑے بھی کر دئیے جائیں تب بھی تمہیں ہاتھ اُٹھانے کی اجازت نہیں ہے. حضرت خباب ؓ بن ارت کو دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹایا جارہا ہے. لیکن مسلمانوں کو مداخلت کی اجازت نہیں تھی. کیا مسلمان بے غیرت تھے! معاذ اللہ. خاص طور پر جب میں یہ سوچتا ہوں تو مجھ پر جھرجھری طاری ہو جاتی ہے کہ حضرت سمیہؓ کو ابو جہل نے شہید کیا ہے اور کس طرح شہید کیا ہے! کس قدر کمینگی کے ساتھ انہیں ایذائیں پہنچائی ہیں. ماں کو جوان بیٹے کے سامنے ننگا کیا ہے. پھر مزید جو کچھ کیا ہے میرے قلم پر نہیں آسکتا. اور بالآخر جب شہید کیا ہے تو تاک کر اُنؓ کی شرم گاہ میں اس طرح برچھا مارا کہ پُشت سے آرپار ہو گیا تھا. یہ سب کچھ مجمع عام میں ہو رہا ہے اور اس وقت تک کم سے کم تیس چالیس مسلمان موجود تھے اور ان میں سے ہر ایک ہزاروں بلکہ لاکھوں کے برابر تھا. سوچئے کہ کیا یہ تیس چالیس مسلمان معاذ اللہ بے غیرت تھے! ان لوگوں کو نظر نہیں آرہا تھا کہ ہماری ایک بہن جو محمد رسول اللہﷺ کا کلمہ پڑھنے والی ہے‘ اس کے ساتھ ابو جہل یہ بہیمانہ سلوک کر رہا ہے.اگر انہیں اجازت ہوتی تو کیا وہ ابوجہل کی تکابوٹی نہ کر دیتے! لیکن اجازت نہیں تھی. کبھی سیرت مطہرہ کا مطالعہ کیجئے تو معلوم ہو گا کہ آلِ یاسر جو تین افراد پر مشتمل گھرانہ تھا‘ حضرت یاسر‘ ان کی اہلیہ سمیہ اور ان کے بیٹے عمار رضی اللہ تعالیٰ عنھم! ان پر ابو جہل نے جو مسلسل ستم ڈھا رکھا تھا تو خود نبی اکرم ﷺ کبھی سامنے سے گزرتے تھے تو انہیں تلقین فرماتے تھے: اِصْبِرُوْا یَا آلَ یَاسِرْ فَاِنَّ مَوْعِدَکُمُ الْجَنَّۃُ . یعنی ’’ اے یاسر کے گھرانے والو!صبر کرو اس لیے کہ تمہارے وعدے کی جگہ جنت ہے‘‘ -حضورؐ نے قریباً بارہ برس تک یہ تربیت دی ہے. سوچیے کہ یہ تربیت کس بات کی تھی. اس بات کی کہ ایک طرف اپنے موقف پر ڈٹے رہو‘ قدم پیچھے نہ ہٹے. لیکن دوسری طرف تمہارا ہاتھ نہ اُٹھے‘ بلکہ جھیلو اور برداشت کرو. اگر جان چلی جائے تو فہو المطلوب شہید ہو گئے تو فَاِنَّ مَوْعِدَکُمُ الْجَنَّۃُ ادھر تمہاری آنکھ بند ہوئی اُدھر جنت میں داخلہ ہو گیا.
سورۂ یٰسین تو آپ پڑھتے ہوں گے وہاں نقشہ کھینچا گیا ہے کہ جب رسولوں کی تصدیق کرنے والے شخص نے یہ کہا تھا : ’’اِنِّیۡۤ اٰمَنۡتُ بِرَبِّکُمۡ فَاسۡمَعُوۡنِ ﴿ؕ۲۵﴾‘‘ یعنی’’سُن لو کہ میں تو ایمان لاتا ہوں اس پر جو تم سب کا رب ہے.‘‘ تو فوراً انہیں شہید کر دیا گیا. قرآن مجید نے اس کا ذکر نہیں کیا‘ صرف جو نتیجہ نکلا اسے بیان کر دیا: ’’قِیۡلَ ادۡخُلِ الۡجَنَّۃَ ؕ قَالَ یٰلَیۡتَ قَوۡمِیۡ یَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۙ۲۶﴾بِمَا غَفَرَ لِیۡ رَبِّیۡ وَ جَعَلَنِیۡ مِنَ الۡمُکۡرَمِیۡنَ ﴿۲۷﴾‘‘ یعنی جیسے ہی شہید ہوئے جنت میں داخلہ کا پروانہ مل گیا اور انہوں نے کہا کہ کاش میری قوم کو میرے اس اعزاز کا علم ہوتا. کاش انہیں معلوم ہوتا کہ میں نے کتنی بڑی کامیابی حاصل کی ہے جس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا کہ مجھے میرے رب نے حساب کتاب کے بغیر بخش دیا. میرے تمام گناہ معاف کر دئیے اور مجھے اعزاز و اکرام پانے والوں میں شامل فرمایا. تو جن لوگوں کو بھی شہادت نصیب ہو جائے لاریب وہ اپنے مطلوب کو پا گئے.
پس منکرات کا استیصال جو طاقت کے ساتھ ہے‘ قوت کے ساتھ ہے‘ گویا ’’بِیَدِہٖ‘‘ ہے‘ اس کا ایک PROCESS ہے‘ ایک طریقہ ہے. وہ طریقہ ہمیں سیرت النبی ﷺ سے لینا ہو گا. وہ وقت بھی آیا کہ حضورؐ نے طاقت کو استعمال فرمایا اور آپؐ کے ہاتھ میں تلوار آئی. غزوہ ٔبدر میں سپہ سالار کون تھے! محمد رسول اللہ ﷺ . لیکن طاقت کے استعمال کے مرحلہ سے پہلے جو مراحل ہیں‘ انہیں ملحوظ رکھنا اور انہیں طے کرنا ضروری ہے. وہ مراحل ہیں کہ قرآن مجید کی دعوت و تبلیغ کے ذریعہ سے پہلے ایک جمعیت فراہم کی جائے. اس میں وہ افراد شریک ہوں جو شعوری طور پر تقویٰ‘ اطاعت اور فرماں برداری کی روش اختیار کریں.تکمیل تو موت تک نہیں ہو گی. لیکن یہ تو ہو کہ فیصلہ کر کے ایک عزمِ مصمَّم کے ساتھ تقویٰ اور اسلام کی راہ پر چل پڑے ہوں: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَ لَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَ اَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ ﴿۱۰۲﴾ -پھر وہ باہم جڑیں‘ باہم مربوط ہوں: وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَلَا تَفَرَّقُوْا - پھر ان کی آپس کی محبت مثالی ہو. وہ رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ اور اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُوْمِنِیْنَ کا کامل پیکر ہوں اور ان کا حال یہ ہو: وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ وَلَوْ کَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌ - اور وہ اپنی جانوں سے اپنے مسلمان بھائیوں کی ضروریات کو مقدم رکھتے ہیں چاہے اپنے اُوپر فاقے گزر رہے ہوں. ان کی محبتیں ایسی ہوں کہ ایک زخمی کراہ رہا ہے. جان نکلنے کے قریب ہے اور پکار رہا ہے العطش‘ العطش. پانی کا پیالہ ان کے پاس لایا جاتاہے کہ دوسرے بھائی کی آواز آجاتی ہے العطش‘ العطش. وہ کہتے ہیں کہ پہلے میرے اُس بھائی کو پانی پلاؤ. پیالہ وہاں پہنچتا ہے کہ تیسرے زخمی کی آواز آتی ہے العطش‘ العطش. وہ کہتے ہیں کہ پہلے میرے اس بھائی کو پانی پہنچاؤ. پیالہ تیسرے کے پاس پہنچتا ہے تو وہ اللہ کو پیارے ہو چکے. پیالہ دوسرے کے پاس واپس آتا ہے تو ان کا دم بھی نکل چکا ہوتا ہے. اب پیالہ پہلے زخمی کے پاس لایا جاتا ہے تو ان کی رُوح بھی قفسِ عنصری سے پرواز کر چکی. ایک طرف یہ ایثار اوررُحمَآءُ بَیْنَھُمْ کی یہ شان اور دوسری طرف یہ رویّہ اور کیفیت کہ: فَاسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا - سنو اور اطاعت کرو. (LISTEN AND OBEY) اگر یہ ڈسپلن نہیں تو یہ جماعت نہیں‘ MOB ہے. یہ حزب اللہ نہیں ہے‘ ایک ہجوم ہے. اس کے سوا اور کچھ نہیں. اقبال نے اسی فرق کو واضح کیا ہے ؎
عیدِ آزاداں شکوہِ ملک و دیں
عیدِ محکوماں ہجوم مومنیں!
یہ ہجوم ہوتا ہے چاہے دو لاکھ کا مجمع ہو. کوئی نظم نہیں‘ کوئی ڈسپلن نہیں‘ کوئی کسی حکم سننے والا اور ماننے والا نہیں. ہر شخص اپنی جگہ سقراط و بقراط ہے. کوئی کسی کی بات سننے اور ماننے والا نہیں ہے. اِس ہجوم سے کوئی مثبت اور نتیجہ خیز کام نہیں ہوتا. یہ کام اگر ہوگا تو صرف ایک منظم جماعت کے ذریعہ سے ہو گا.
اسی بات کو نہایت تاکیدی اسلوب سے اس آیتِ مبارکہ میں فرمایا جارہا ہے: وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ - تم میں سے لازماً ایک گروہ‘ ایک جماعت‘ ایک(چھوٹی) اُمّت ایسی ہونی چاہئے جس میں شامل لوگ خیر کی طرف دعوت دینے‘ پکارنے اور بلانے والے ہوں. نیکی کا حکم دینے والے اور بدی سے روکنے والے ہوں -امر بالمعروف اور نہی عن المنکرزبان سے تو ہر وقت ہو سکتا ہے‘ صرف انسان کے اندر جرأت کی ضرورت ہے. جس بات کو حق اورصحیح سمجھے اسے بیان کرے. اِسی لیے تو فرمایا گیا کہ: اَفْضَلُ الْجِھَادِ کَلِمَۃُ حَقٍّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ.منکرات کے خلاف سلطانِ جائر کے سامنے کلمۂ حق کہنے کو حضور ﷺ نے یہاں افضل الجہاد کہا ہے اور اس دَور میں اصل سلطان عوام الناس ہیں جن کے ووٹوں سے اقتدار کسی پارٹی کے سپرد ہوتا ہے. گویا علامہ اقبال یہ ’’سلطانی ٔ جمہور‘‘ کا زمانہ ہے اس لیے جہاں نہی عن المنکر کا ایک رُخ اربابِ اقتدار کی طرف ہونا چاہئے وہاں اس سے بھی زیادہ شدّومد کے ساتھ اس کا رُخ معاشرہ کی طرف ہونا چاہئے. اگر نہی عن المنکر سے پہلو تہی ہو گی‘ اعراض ہو گا تو اس کا دو کے سوا اور کوئی سبب نہیں ہوسکتا کہ یا بزدلی ہے یا بے حمیتی ہے. باقی اور کوئی شکل نہیں ہو سکتی. مزید یہ بات بھی جان لیجئے کہ امر بالمعروف بہت آسان کام ہے. لوگوں کو نیکی کی تلقین کرنا‘ نصیحت کرنا‘ اعمالِ صالحہ کے فضائل بیان کرنا کوئی مشکل کام نہیں. اگرچہ ان کی بھی اہمیت ہے اور کون ہے جو اس سے انکار کرے گا‘ لیکن اس کے ذریعے کچھ لوگ صرف انفرادی طور پر نیکو کار بن جائیں گے. معاشرہ ہرگز تبدیل نہیں ہوگا جب تک منکرات کے خلاف جماعتی سطح پر منظم محنت‘ سعی و کوشش‘ جدوجہد بلکہ خالص دینی اصطلاح میں جہاد نہ ہو‘ اور یہ واقعی مشکل اور جان جوکھوں کا کام ہے.
لہذا اس جہاد کے لیے جس کے اعلیٰ مقام و مرتبہ کو نبی اکرم ﷺ جہاد بالیَد یعنی طاقت کے ساتھ جہاد قرار دیا ہے. فَمَنْ جَاھَدَھُمْ بِیَدِہٖ فَھُوَ مُؤْمِنٌ. اس کے لیے ضروری ہو گا کہ پہلے ایک جماعت تشکیل دی جائے‘ جس میں شامل لوگوں میں ایک طرف تقویٰ اور فرماں برداری کے اوصاف ہوں‘ دوسری طرف اعتصام و تمسّک بالقرآن کا عمل ہو‘ اور تیسری طرف اس جماعت کے لوگ باہم نہایت محبت کرنے والے اور دوسرے کے لیے ایثار کرنے والے ہوں. اور آخری بات یہ کہ سمع و طاعت کے نظم کے ساتھ ایک امیر کی اطاعت فی المعروف کو اپنے اوپر لازم اور واجب بلکہ فرض سمجھنے والے ہوں-اس کام کے لیے جو جماعت درکار ہے اس کے اوصاف کی رہنمائی ہمیں اس حدیث سے ملتی ہے جو حضرت حارث الاشعریؓ سے مروی ہے اور جسے امام احمد ابن حنبل اور امام ترمذی رحمہما اللہ بالترتیب اپنی ’مُسند‘ اور اپنی ’جامع‘ میں لائے ہیں. حضرت حارث الاشعریؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’اٰمُرُکُمْ بِخَمْسٍ : بِالْجَمَاعَۃِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ وَالْھِجْرَۃِ وَالْجِھَاد‘ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ - ’’میں تمہیں پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں: التزامِ جماعت کا سمع و طاعت کا‘ اور اللہ کی راہ میں ہجر ت و جہاد کا.‘‘ایک دوسری روایت میں ’اٰمُرُکُمْ بِخَمْسٍ‘ کے بعد الفاظ آئے ہیں: ’’اَللہُ اَ مَرَنِیْ بِھِنَّ‘‘ یعنی ’’اس کا حکم مجھے اللہ نے دیا ہے.‘‘ یعنی میں تم کو یہ حکم اللہ کے حکم کی تعمیل میں دے رہا ہوں. اس حدیث میں ’ہجرت و جہاد‘ کی جو اصطلاحات آئی ہیں ان کے وسیع تر معانی و مفاہیم پر بعد میں گفتگو ہو گی.