مطالعہ قرآن حکیم کے جس منتخب نصاب کو دعوت رجوع الیٰ القرآن کے اس کام کی جڑ بنیاد کی حیثیت حاصل ہے اس کا حصہ اول چند نہایت جامع اسباق پر مشتمل ہے جن میں انسان کی نجات اور فوز و فلاح کے جملہ لوازم کو نہایت جامعیت کے ساتھ یکجا بیان کر دیا گیا ہے. چنانچہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ اسی جامعیت کبریٰ کی حامل ہے سورۃ العصر‘ پھر یہی شان ہے آیہ بر (۱) کی اور اسی جامعیت کا مظہر اتم ّ ہے سورۂ لقمان کا دوسرا رکوع - قرآن حکیم کا ایک ایسا ہی جامع مقام سورۂ آل عمران کی آیات ۱۰۲ تا ۱۰۴ پر مشتمل ہے جو اپنی جامعیت کے اعتبار سے بھی سورۃ العصر کی شان کا حامل ہے اور حسنِ اتفاق سے جس طرح سورۃ العصر تین آیات پر مشتمل ہے اُسی طرح یہاں بھی تین ہی آیات میں ایک مکمل لائحہ عمل بیان کر دیا گیا ہے صرف اس فرق کے ساتھ کہ سورۃ العصر میں بات ایک قاعدہ کلیہ اور حقیقت عمومی (Universal Truth) کے انداز میں بیان ہوئی ہے اور سورۃ آل عمران کے اس مقام پر خطاب براہ راست امت مسلمہ سے ہے تو آئیے پہلے ان آیات کی تلاوت کر لیں:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَ لَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَ اَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ ﴿۱۰۲﴾وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا ۪ وَ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ کُنۡتُمۡ اَعۡدَآءً فَاَلَّفَ بَیۡنَ قُلُوۡبِکُمۡ فَاَصۡبَحۡتُمۡ بِنِعۡمَتِہٖۤ اِخۡوَانًا ۚ وَ کُنۡتُمۡ عَلٰی شَفَا حُفۡرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنۡقَذَکُمۡ مِّنۡہَا ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمۡ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمۡ تَہۡتَدُوۡنَ ﴿۱۰۳﴾وَلۡتَکُنۡ مِّنۡکُمۡ اُمَّۃٌ یَّدۡعُوۡنَ اِلَی الۡخَیۡرِ وَ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿۱۰۴﴾ (۱) البقرہ : ۱۷۷ ’’لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ..... الآیۃ‘‘ ’’ اے ایمان والو! اللہ کا تقوی اختیار کرو جتنا کہ اس کے تقویٰ کا حق ہے اور دیکھنا تمہیں ہر گز موت نہ آنے پائے مگر اس حال میں کہ تم (اللہ کے) فرمانبردار ہو. اور چمٹ جاؤ اللہ کی رسی کے ساتھ مجموعی طور پر اور باہم تفرقہ میں مت پڑو. اور یاد کرو اللہ کی اُس نعمت کو جو تم پر ہوئی‘ جبکہ تم باہم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کر دی اور تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے اور تم تو آگ کے گڑھے کے بالکل کنارے تک جاپہنچے تھے لیکن اللہ نے تمہیں اس سے بچایا. اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لیے اپنی آیات کی وضاحت کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاسکو! اور چاہئے کہ تم سے ایک ایسی جماعت وجود میں آئے جو خیر کی دعوت دے‘ نیکی کا حکم دے اور بدی سے روکے-اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں.‘‘
یہ آیات مبارکہ اس سورت کے قریباً وسط میں واقع ہوئی ہیں. اس لیے کہ سورۂ آل عمران دو سو آیات پر مشتمل ہے اور اِن آیات کا نمبر ہے ۱۰۲‘ ۱۰۳ اور ۱۰۴. گویا قریباً وسط ہے. میرے نزدیک اِن آیات میں ہم مسلمانوں کے لیے ایک لائحہ عمل ہے‘ اگرچہ قرآن مجید کی ہر آیت میں علمی نکات بھی ہیں ‘ حکمت و فلسفہ کے مسائل بھی ہیں اور عملی رہنمائی بھی ہے. چنانچہ ان میں بھی یقینا علمی اعتبار سے بڑے وقیع نکات ہیں‘ لیکن آج میری گفتگو ان کے عملی پہلوؤ ں کے بیان تک محدود رہے گی. اس لیے کہ علمی نکات پر توجہ کا ارتکا ز زیادہ ہو جائے تو اکثر و بیشتر عملی رہنمائی کی طرف توجہ نہیں ہوتی. لہذا آج میری کوشش یہ ہو گی کہ اِن آیات مبارکہ کے مطالعہ سے جو عملی لائحہ عمل ہمارے سامنے آتا ہے اُسے آپ کے سامنے رکھوں.
جیسا کہ اس سے قبل عرض کیا جاچکا ہے قرآن مجید کی یہ تین آیات اس عملی رہنمائی اور ہدایت کے اعتبار سے جو وہ اہل ایمان کے سامنے رکھتا ہے قرآن مجید کے جامع ترین مقامات میں سے ہیں. امت مسلمہ کے ایک فرد ہونے کی حیثیت سے ایک مسلمان کے کیا فرائض ہیں اور اس پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں! اِسے سب سے پہلے کن امور پر اپنی توجہات کو مرتکز کرنا ہو گا‘ اِن کو بڑی جامعیت کے ساتھ پہلی آیت میں بیان کیا گیا ہے. دوسری آیت کا موضوع یہ ہے کہ اِن افراد کو باہم جوڑنے والی چیز‘ انہیں ایک امت بنانے والی شے‘ انہیں ’’حزب اللہ‘‘ بنانے والی چیز‘ ان کے مابین ذہنی و فکری ہم آہنگی اور عملی اتحاد پیدا کرنے والی چیز کون سی ہے !!- اور تیسری آیت میں یہ نشاندہی فرمائی گئی کہ اس امت یا حزب اللہ یا اس جماعت کا مقصد کیا ہے !!! کس کام کے لیے اس کو محنت اور جدوجہد کرنی ہے!
اب آپ خود غور کر سکتے ہیں کہ ان تین آیات کے مابین بڑا منطقی ربط ہے. اس لیے کہ بڑی سے بڑی اجتماعیت بھی افراد ہی پر مشتمل ہوتی ہے. اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ ؎
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
افراد کا رخ درست نہ ہو تو اجتماعیت کا رخ کیسے درست ہو جائے گا! اگر افراد وہ لائحہ عمل اختیار نہ کریں جو اُن کو دیا گیا ہے تو اجتماعی زندگی کے لیے جو صحیح لائحہ عمل ہے‘ اسے کیسے اختیار کیا جاسکتا ہے؟ لہذا ترتیب یہی ہے کہ سب سے پہلے ہر فرد اپنے طور پر سوچے کہ مجھے کیا کرنا ہے! مجھ سے تقاضا کیا ہے! مجھ سے مطالبہ کیا ہے! میں اس بات کو سمجھانے کے لیے مسجد کے منبر کی مثال دیا کرتا ہوں‘ چونکہ عام طور پر اس کی تین سیڑھیاں ہو اکرتی ہیں. ہر شخص جانتا ہے کہ اگر کوئی شخص چھلانگ لگا کر تیسری سیڑھی پر چڑھنا چاہے گا تو اوندھے منہ گرے گا. صحیح طریقہ یہی ہے کہ اولاً پہلی سیڑھی پر‘ پھر دوسری سیڑھی پر اور پھر تیسری سیڑھی پر پہنچنے کی کوشش کرے. ان آیات میں گویا عملی اعتبار سے یہ تین مراحل ہیں. یہ تین سیڑھیاں ہیں جو ہمارے سامنے آرہی ہیں.