اب آئیے دوسری آیت پر. وہ لوگ جو پہلی آیت کے تقاضوں -’تقویٰ اور اسلام‘ پر کسی نہ کسی درجے میں عمل کر رہے ہوں-میں یہ نہیں کہ رہا کہ کر چکے ہوں. اس لیے کہ انسان موت تک کبھی یہ طے نہ کر سکے گا کہ میں یہ تقاضے پُورے کر چکا ہوں. کون شخص یہ دعویٰ کر سکے گا کہ میں نے اللہ کا اتنا تقویٰ اختیار کر لیا جتنا کہ اُس کا حق ہے. کوئی انسان اس کا دعویٰ نہیں کر سکتا. جب صحابہ کرامؓ گھبرا گئے تو ہم میں سے کون ہو گا جو اس کی جرأت کر سکے. لہذا جو اس پر عمل کے لیے کوشاں ہوں‘ اس کے لیے مسلسل جدوجہد کر رہے ہوں‘ اب ان کو آپس میں جڑنا چاہئے‘ اس لیے کہ جب تک وہ آپس میں مربوط نہیں ہوں گے‘ بنیان مرصوص نہیں بنیں گے‘ اس وقت تک وہ دنیا میں کوئی مؤثر اور نتیجہ خیز کام نہیں کر سکتے. آپ کو کوئی بھی چھوٹا بڑا کام کرنا ہو‘ خواہ وہ بھلائی کا ہو یا برائی کا‘ اس کے لیے اجتماعیت ناگزیر ہے. اب بات سمجھانے کے لیے ایک مثال پیش کر رہا ہوں کہ جو لوگ جیب کاٹنے کا پیشہ اختیار کرتے ہیں ان کا بھی اپنا ایک جتھ نہ ہو‘ ایک گروہ نہ ہو‘ اُن کا کوئی گُرو نہ ہو اور وہ شہر کے علاقے ان کے مابین تقسیم نہ کرتا ہو‘ روزانہ سارے جیب کترے اپنی کمائی لے جاکر اس کے قدموں میں نہ ڈال دیتے ہوں تو یہ پیشہ بھی ’’کامیابی‘‘ سے نہیں چل سکتا. ڈاکوؤں کے بارے میں تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ ان کا بڑا مضبوط جتھ ہوتا ہے اور اس میں بڑا سخت نظم ہوتا ہے‘ ورنہ وہ کیسے بڑے بڑے ڈاکے ڈال سکیں!
پس معلوم ہوا کہ کوئی کام چاہے خیر کا ہو خواہ شر کا‘ اس کے لیے اجتماعیت ناگزیر ہے اور اس کے کارکنوں کا باہم مربوط ہونا لازم ہے. خیر کا سب سے عظیم کام وہ ہے جو جناب محمد رسول اللہ ﷺ نے سر انجام دیا. میں اس کا ذکر آگے کروں گا. اس کام کے لیے ظاہر بات ہے کہ اجتماعیت کی ضرورت ہے لیکن جس طرح فصیل کے لیے پختہ اینٹ کی ضرورت ہے‘آپ ناپختہ اینٹ کو لگا دیں تو دیوار کمزور رہے گی‘ لہذا پہلی چیز کیا ضروری ے؟ یہ کہ ہر اینٹ پختہ ہو. اب انسانی اجتماعیت میں اینٹ کی جگہ فرد کو متصور کیجئے. مسلم اجتماعیت کی ہر اینٹ کی پختگی کا پروگرام تو پہلی آیت میں آچکا: ’یٰٓاَ یُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُم مُسْلِمُوْنَ‘. اب ان اینٹوں کو باہم جوڑنا ہے. خود بخود سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کو جوڑنے والا مسالہ کون سا ہے! اس کا جواب ہے اس دوسری آیت میں : ’وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا‘. ’’اورمضبوطی سے پکڑ لو اللہ کی رسی کو سب مل جل کر اور جمع ہوکر‘‘ یا اس کا ترجمہ یہ بھی ہے کہ ’’پوری کی پوری رسی کو‘‘ اس لیے کہ یہاں ’’جَمِیْعًا‘‘ حال ہے.کس کے لیے حال ہے ! یہ ہے اصل سوال. یہاں قرآن مجید کے اصولوں میں سے ایک اصول جان لیجئے! اگر قرآن مجید میں کوئی ایسا لفظ یا حکم آگیا ہے جس کی وضاحت درکار ہے تو پہلا اصول یہ ہے کہ قرآن مجید ہی کی طرف رجوع کرو. اکثر ایسا ہوتا ہے کہ قرآن مجید کا ایک حصہ دوسرے حصے کی تشریح کر دیتا ہے. مفسرین کے یہاں یہ اُصول تسلیم کیا جاتا ہے کہ: ’اَلْقُرْاٰنُ یُفَسِّرُ بَعْضُہُ بَعْضًا‘. قرآن کا ایک حصہ دوسرے حصے کی تفسیر کر دیتا ہے. لیکن فرض کیجئے کہ آپ کو قرآن مجید میں کہیں دوسری جگہ اس کی توضیح نہیں ملی. اب قرآن مجید کو سمجھنے کا دوسرا ذریعہ کیا ہے؟
وہ ہے سنتِ رسول علٰی صاحبھا الصّلٰوۃ والسلام.اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے خود قرآن مجید میں یہ فرمایا ہے کہ اے نبی ! یہ آپ کا فرض منصبی ہے کہ جو کتاب ہم آپ پر نازل کر رہے ہیں آپ اس کی وضاحت فرمائیں: وَاَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ(النحل: ۴۴) ’’اے محمد (ﷺ ) یہ الذکر‘ یہ کتاب‘ یہ قرآن‘ یہ نصیحت آپؐ پر نازل کی گئی ہے تاکہ آپؐ اس کی تبیین کریں‘ اس کی وضاحت کریں ان لوگوں کے لیے جن کے لیے اسے ہم نے اتارا ہے.‘‘ لہذا ہمارا دوسرا طریقہ کیا ہو گا! یہ کہ سنت و حدیثِ رسولؐ کی طرف رجوع کریں کہ یہاں جو ’حبل اللہ‘ فرمایا گیا ہے اس سے مراد کیا ہے! مجھے ان حضرات سے اختلاف ہے جنہوں نے اس کے معنی خود معین کرنے کی کوشش کی ہے. اس لیے کہ اگر حبل اللہ کا مفہوم احادیث میں نہ ہوتا اور وہ احادیث مرفوع نہ ہوتیں یا سند کے اعتبار سے مضبوط نہ ہوتیں تب تو معاملہ دوسرا ہو سکتا تھا لیکن جہاں ہمیں مرفوع حدیث مل جائے اور وہ ثقہ ہو‘ مضبوط ہو‘ مستند ہو‘ روایت کے اعتبار سے قابلِ اعتماد ہو تو پھر اس کے بعد اپنا ’اقول‘لگانے کی کوشش کرنا‘ اپنا فلسفہ بیان کرنا‘ میرے نزدیک یہ رسول اللہ ﷺ کی توہین ہو جائے گی. جہاں کوئی چیز نہیں ملی وہاں آپ غور کیجئے‘ اپنی عقل کے گھوڑے دوڑائیے لیکن جہاں حضور ﷺ کا قول مل جائے وہاں اپنی عقل‘ اپنی سوچ اور محض لغوی معنوں پر بحث میرے نزدیک غلط ہے. اب میں اختصار کے ساتھ آپ کو حضورؐ کی تین احادیث سنا دیتا ہوں کہ نبی اکرمﷺ نے ’حبل اللہ‘ کا کیا مفہوم و مطلب معین فرمایا ہے.
حضرت علی ؓ سے قرآن کی عظمت و فضیلت کے بارے میں طویل حدیث مروی ہے. اس میں حضور ﷺ نے قرآن کے بارے میں فرمایا: ھُوَ حَبْلُ اللّٰہِ الْمَتِیْنُ . ’’یہ قرآن ہی اللہ کی مضبوط رسّی ہے.‘‘(ترمذی و دارمی)
دوسری حدیث حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ: قَالَ رسولُ اللہِ ﷺ : اَلْقُرْآنُ حَبْلُ اللہِ الْمَمْدُوْدُ مِنَ السَّمَاءِ اِلَی الْاَرْضِ. ’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قرآن ہی اللہ کی وہ رسی ہے جو آسمان سے زمین تک تنی ہوئی ہے.‘‘
تیسری حدیث طبرانی کبیر میں حضرت جُبیرؓ ابن مطعم سے مروی ہے اور بڑی ہی پیاری حدیث ہے. اس کے اندر جو تفصیل آئی ہے وہ ایسی ہے کہ جس کو سُن کر تھوڑی دیر کے لیے انسان اپنے آپ کو دورِ نبوی کے ماحول میں موجود محسوس کرنے لگتا ہے. حضور ﷺ اپنے حجرے سے برآمد ہوئے. آپؐ نے دیکھا کہ مسجد نبوی کے ایک گوشے میں چند صحابہ بیٹھے ہوئے ہیں اور قرآن پڑھ رہے ہیں اور آپس میں سمجھ سمجھا رہے ہیں. گویا قرآن مجید کا مذاکرہ ہو رہا ہے. حضورؐ کے چہرۂ مبارک پر بشاشت کے آثار نمایاں ہوئے. آپؐ ان کے پاس تشریف لائے اور ان سے ایک عجیب سوال کیا. آج آپ حضرات بھی یہ سوال اپنے آپ سے کیجئے اور پھر سوچئے کہ جو جواب صحابہ کرامؓ نے دیا تھا کیا وہ جواب ہم بھی اپنے قلب کی گہرائی سے دے سکتے ہیں! سوال کیا تھا: ’’اَلَسْتُمْ تَشْھَدُوْنَ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ وَ اَنِّیْ رَسُوْلُ اللہِ وَاَنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ جَاءَ مِنْ عِنْدِ اللہِ ؟‘‘ ’’کیا تم اس بات کے گواہ نہیں ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں . وہ تنہا ہے اور اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں‘ اور یہ کہ قرآن اللہ کے پاس سے آیا ہے؟‘‘ صحابہ کرامؓ کا جواب تھا: بَلٰی یَا رَسُوْلَ اللہِ . ’’یقینا اے اللہ کے رسول(ﷺ )‘‘ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے کہ ہم بھی قلب کی گہرایوں سے یہی گواہی دے سکیں. اپنی زبان کی نوک سے تو ہم سب اس کی گواہی دیتے ہیں کہ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہِ ‘ لیکن جب یہ گواہی ہمارے قلب کی گہرائی سے اُبھرے تب ہے اصل گواہی. جس کے لیے اقبال نے کہا ہے کہ ؎
خرد نے کہہ بھی دیا لا الٰہ تو کیا حاصل
دل و نقاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں!
اور ؏
’’دے تو بھی محمدؐ کی صداقت کی گواہی‘‘
صلی اللہ علیہ وسلم. بہر حال جب صحابہ کرام ؓ نے یہ جواب دیا : بَلٰی یَا رَسُوْلَ اللہِ . تب حضور ﷺ نے فرمایا: ’’ فَاَبْشِرُوْا فَاِنَّ ھَذَا الْقُرْاٰنَ طَرَفُہٗ بِیَدِ اللہِ وَطَرَفُہٗ بِاَیْدِیْکُم فَتَمَسَّکُوْا بِہٖ فَاِنَّکُمْ لَنْ تَھْلِکُوْا وَلَنْ تَضِلُّوْا بَعْدَہٗ اَ بَدًا‘‘. ’’ تو اب خوشیاں مناؤ. اس لیے کہ قرآن کا ایک سرا اللہ کے ہاتھ میں ہے اور ایک سرا تمہارے ہاتھ میں . پس اسے مضبوطی سے تھامے رکھو! اگر تم نے اسے تھامے رکھا تو تم اس کے بعد نہ کبھی ہلاک ہو گے اور نہ گمراہ‘‘ -اب بتائیے کہ ان تین احادیث کے بعد کچھ اور کہنے کی گنجائش ہے؟ کیا حبل اللہ کا مفہوم قرآن مجید کے سوا کچھ اور ہو سکتا ہے. کیا نبی اکرم ﷺ کے ان ارشادات کے بعد میرا یا کسی اور کا‘ کسے باشد‘ یہ حق تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ حبل اللہ کا کوئی دوسرا مفہوم بیان کر سکے. حضور ﷺ نے واضح طور پر معین فرمایا کہ حبل اللہ قرآن مجید ہے. علامہ اقبال نے بڑے خوبصورت انداز میں فارسی میں کہا ہے کہ ؎
از یک آئینی مسلماں زندہ است
پیکرِ ملّت ز قرآں زندہ است
ماہمہ خاک و دلِ آگاہ اوست
اعتصامش کُن کہ حبل اللہ اوست
یعنی مسلمانوں کی حیاتِ ملّی اور ہیئتِ اجتماعی کا کل دارومدار قرآن پر ہے جس سے انہیں ایک قانون اور آئین میسر آتا ہے. ہم سب یعنی جملہ اعضائے جسدِ ملّی تو خاک کے مانند ہیں‘ اس جسدِ خاکی میں قلب کی حیثیت قرآن کو حاصل ہے. پس اے مسلمان اسے مضبوطی سے تھام لے اس لیے کہ حبل اللہ یہی ہے!
پس ایک اور عملی نکتہ یہ ہوا کہ: وَاعْتَصِمُوا بَحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا! اللہ کی اس رسی یعنی قرآن مجید سے مضبوطی کے ساتھ چمٹ جاؤ- عربی میں عصمت کہتے ہیں حفاظت کو-اور اعتصام کے معنی ہوں گے اپنی حفاظت کے لیے کسی سے چمٹ جانا.کسی چھوٹے بچے کا تصور کیجئے‘ اگر کسی وقت اُسے کسی طرف سے کوئی اندیشہ ہو‘ خطرہ ہو‘ کوئی خوف ہو تو آپ کو معلوم ہے کہ وہ بے اختیار اپنی ماں کی گود کی طرف لپکتا ہے اور اس کے سینہ سے چمٹ جاتا ہے. اس کے ذہن کی جو چھوٹی سی دنیا ہے اور اس کا جو چھوٹا سا پیمانہ ہے اس کے مطابق ماں کے سینہ سے چمٹ کر وہ یہ سمجھتا ہے میں قلعہ میں آگیا ہوں. اب مجھے پوری حفاظت حاصل ہو گئی ہے. یہ بالکل دوسری بات ہے کہ کوئی شقی القلب انسان بچے کو ماں کی گود سے چھینے‘ اس کو اُچھالے اور نیزے کی اَنی میں پرو دے‘ جیسا کہ قیام پاکستان کے فسادات کے وقت اور ۷۰ میں مشرقی پاکستان کے سقوط کے سانحہ کے موقع پرعملاً ہو چکا ہے -بہر حال اعتصام کا مفہوم ہے حفاظت کے لیے کسی سے چمٹ جانا. چنانچہ فرمایا:وَاعْتَصِمُوا بَحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا. اس قرآن مجید کو‘ اللہ کی اس رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھام لو. س کے ساتھ مل جُل کر چمٹ جاؤ یا پورے کے پورے قرآن کو تھامو‘ اُدھورے کو تھامو گے تو وہی بات ہو جائے گی جو میں پہلے عرض کر چکا ہوں یعنی ’’اَفَتُؤْمِنُوْنَ بَبَعْضِ الْکِتَاب وَ تَـکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ‘‘ ’’کیا تم کتاب الٰہی کے ایک حصے کو مانتے ہو اور ایک کو نہیں مانتے!‘‘ - ’جَمِیْعًا‘ کے لفظ میں یہ دونوں مفاہیم شامل ہیں کہ مِل جُل کر قرآن کو تھامو‘ اِس سے چمٹ جاؤ اور یہ کہ پُورے کے پُورے قرآن کو تھامو‘ اس کے ایک حصے اور جزو کو نہیں . اسی کو مؤکد کیا گیا یہ فرما کر کہ وَلَا تَفَرَّقُوْا اور اس معاملہ میں تفرقہ میں نہ پڑ جانا.
اس کے بعد اس دور سے جس میں قرآن مجید نازل ہو رہا تھا ایک تاریخی گواہی پیش کی گئی. ارشاد فرمایا: وَاذْکُروْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ ’’ (اے مسلمانو!) اور یادکرو اللہ کا اپنے اوپر احسان اور نعمت‘‘-خطاب کن لوگوں سے ہے اسے ذہن میں رکھئے. میں عرض کر چکا ہوں کہ اس کے مخاطب ہیں مہاجرین اور انصار - اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَاءً ’’جب تم آپس میں دشمن تھے‘‘ فَاَ لَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ ’’ پھر اللہ نے تمہارے دلوں میں محبت پیدا کر دی ‘‘ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖ اِخْوَانًا ’’پس اللہ کے انعام و اکرام سے تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے‘‘ -مدینہ دو قبیلوں اوس اور خزرج میں بڑی پُرانی دشمنی تھی جس کے نتیجے میں اسلام سے قبل ان میں بڑی خونی جنگیں ہوتی رہی تھیں. علاوہ ازیں عرب میں دوسرے قبائل میں بھی بات بات پر جنگیں ہوتی رہتی تھیں . الغرض پُورے عرب میں بدامنی تھی . صرف قریش کو امن حاصل تھا وہ بھی خانہ کعبہ کی بدولت‘ چونکہ وہ اس کے متولی تھے. ورنہ پورے عرب میں خانہ جنگی تھی. لوٹ مار‘ غارت گری اور بدامنی کا بازار گرم تھا. اوس اور خزرج کی جس دشمنی کا میں نے ذکر کیا ہے وہ ایک سو سال سے چلی آرہی تھی اور یہ دونوں قبیلے ایک دوسرے کی عداوت اور خانہ جنگی کی وجہ سے ختم ہو رہے تھے-فرمایا کہ ہمارے نبی (ﷺ )یہاں تشریف لائے. اس قرآن نے تمہیں آپس میں جوڑا‘ تمہیں بنیان مرصوص بنا دیا. ورنہ تمہاری کیفیت اور حالت یہ تھی: وَ کُنْتُمْ عَلٰی شَفَاحُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ. ’’اور تم آگ کے ایک گڑھے کے کنارے تک جا پہنچے تھے.‘‘ اس میں گر کر تباہ ہو جانے والے تھے.فَاَنْقَذَکُمْ مِنْھَا. ’’تو اللہ نے تم کو اس سے بچا لیا.‘‘ بلکہ اس کی ترجمانی یہ ہو گی کہ گویا آگ کے اس گڑھے سے نکال لیا. تم آدھے گر چکے تھے. اس نے تمہارا دامن پکڑ کر تمہیں کھینچ لیا. اس آیت کا اختتام ہوتا ہے ان الفاظ مبارکہ پر : کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَـکُمْ اٰیٰتِہٖ لَـعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ یعنی ’’اسی طرح اللہ تمہارے لیے اپنی نشانیاں بیان فرماتا ہے تاکہ تم ہدایت پاسکو‘‘.
آگے بڑھنے سے پہلے اگر ہم اس آیۂ مبارکہ میں بیان شدہ تاریخی واقعہ کے حوالے سے ملت اسلامیہ پاکستان کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لے لیں تو ایک جانب تو یہ حقیقت مزید مبرہن ہو گی کہ قرآن اللہ کا ابدی اور سرمدی کلام ہے جو اگرچہ نازل تو اب سے چودہ سو برس قبل ہوا تھالیکن اس کی ہدایت و رہنمائی ہمیشہ کے لیے ہے. دوسری جانب ہمیں اس آئینۂ قرآنی میں اپنے موجودہ حالات کی سنگینی کا بھی کما حقہ اندازہ ہو سکے گا -مزید برآں اس سے امید کی کرن بھی چمکے گی کہ جس طرح اللہ نے اپنے فضل و کرم سے اُس وقت کی عرب قوم کی کایا پلٹ دی تھی اسی طرح ہمارے حالات میں بھی انقلاب آسکتا ہے بشرطیکہ ہم اس سہ نکاتی لائحہ عمل کو بالفعل اختیار کر لیں جو اِن آیات مبارکہ میں سامنے آرہا ہے!
کون نہیں جانتا کہ پاکستان کا قیام دو قومی نظرئیے کا مرہون منت تھا‘ جس کی رُو سے پُورے برعظیم ہند و پاک کے مسلمان ایک قوم تھے -گزشتہ چالیس برس میں بجائے اس کے کہ اِس قوم میں اتحاد و یگانگت کا رنگ گہرا ہوتا اور پاکستان کے مسلمانوں کی یکجہتی پورے عالمِ اسلام کے مسلمانوں کے اتحاد کا پیش خیمہ بنتی‘ صورت واقعہ یہ ہے کہ خود پاکستان میں مسلمان قوم کہیں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی. بلکہ اس کی جگہ متعدد نسلی‘ لسانی اور صوبائی قومیتوں نے لے لی ہے اور صرف تشتّت و انتشار ہی نہیں‘باضابطہ قتل و خونریزی اور لوٹ مار اور آتش زنی کا بازار گرم ہے.
ان حالات میں کون سے تعجب کی بات ہے اگر ہمارے دشمن دائیں بائیں گدھوں کی طرح منڈلا رہے ہیں. اس لیے کہ خواہ ہم خود تو حال مست یا مال مست رہیں لیکن اغیار کو تو نظر آرہا ہے ؏ ’’یہی ہے مرنے والی امتوں کا عالم پیری!‘‘
اِن حالات میں آدمی اپنے کاروبار میں اور اپنے ایئرکنڈیشنڈ بنگلہ میں مطمئن اور نچنت ہو کر اور پاؤں پھیلا کر مگن رہے اور حال اس شعر کے مصداق ہو جائے ؏ ’’اب تو آرام سے گزرتی ہے -عاقبت کی خبر خدا جانے‘‘ -تو اس طرح وہ خطرات تو نہیں ٹل سکتے جو ہمارے سر پر منڈلا رہے ہیں اور -اگر ہم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیں جو بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتا ہے اس سے خطرہ تو ٹل نہیں جاتا. اگر ہمارے یہی لچھن رہے کہ ’’اِنَّہُ کَانَ فِیٓ اَھْلِہٖ مَسْرُورًا‘‘ (الانشقاق :۳) ہم اپنے اہل و عیال‘ اپنے کاروبار‘ اپنے عیش و آرام ہی میں مگن رہیں تو دوسری بات ہے لیکن اگر حالات کو چشمِ بصیرت سے دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ اس کے یہ الفاظ ہماری موجودہ کیفیات پر بالکل منطبق ہو رہے ہیں کہ ’’وَکُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ ‘‘ اس لیے کہ جیسے کہ عرض کیا جا چکا ہے قرآن مجید ہمارے لیے ابدی رہنمائی لے کر آیا ہے.لہذا قرآن حکیم میں تدبر کے نتیجہ میں ہر قسم کے حالات‘ کیفیات اور واقعات کے لیے ہمارے سامنے عملی رہنمائی آجاتی ہے. جیسے ہم ختمِ قرآن کی دعا میں کہتے ہیں: اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہُ لَنَا اِمَامًا وَّ نُوْرًا وَّ ھُدًی وَّ رَحْمَۃً. ’’اے اللہ! اس قرآن کو ہمارا امام بنا دے‘ اسے ہمارے لیے نور بنا دے.‘‘لیکن یہ کہنے سے تو نہیں ہو گا. اس قرآن کو مضبوطی کے ساتھ تھامنا‘ اس قرآن کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط سے مضبوط تر کرنا. یہ ہے اس لائحہ عمل کا دوسرا نکتہ جو اِن آیاتِ مبارکہ کے مطالعہ کے حاصل کے طور پر ہمارے سامنے آیا ہے. گویا -پہلا نکتہ ہے تقویٰ اور اسلام. اِتَّقُوْااللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖیعنی اللہ کی نافرمانی سے بچنا. طبعاً اس میں رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی سے بچنا بھی شامل ہے‘ چونکہ رسول کے احکام درحقیقت اللہ ہی کے احکام ہوتے ہیں اور رسول کی اطاعت اللہ ہی کی اطاعت ہوتی ہے. بفحوائے ارشاداتِ ربانیہ: ’’مَنْ یُطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ‘‘ اور ’’ وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ‘‘ (النساء : ۶۴) اور ’’ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ ‘‘ (النساء : ۵۹) اور اسلام سے مراد ہے فرماں برداری. پُوری زندگی میں اور ہر لمحہ ‘ ہر لحظہ: وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ !
اور-دوسرا نکتہ ہے: اعتصام بالقرآن - ’’وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا.‘‘ پورے قرآن کو مل جل کر مضبوطی سے تھامنا اور اس کے بارے میں تفرقہ میں نہ پڑنا. رہی یہ بات کہ ’اعتصام بالقرآن‘ سے مراد کیا ہے تو الحمد للہ اس موضوع پر راقم کا ایک کتابچہ ’’مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق‘‘ لاکھوں کی تعداد میں اردو‘ انگریزی‘ عربی‘ فارسی اور سندھی میں طبع ہو کر کم از کم عالمِ اسلام کے طول و عرض میں پھیل چکا ہے. جس کا لب لباب یہ ہے کہ ہر مسلمان پر حسبِ صلاحیت و استعداد قرآن کے پانچ حقوق عائد ہوتے ہیں. ایک یہ کہ قرآن پر اپنے ایمان اور یقین کو مزید گہرا اور پختہ کرے. دوسرے یہ کہ اس کی تلاوت کرے جیسے کہ اس کی تلاوت کا حق ہے . تیسرے یہ کہ اس کو سمجھے اور اس پر غورو فکر کرے جیسے کہ اس پر تدبر کاحق ہے. چوتھے یہ کہ اس پر عمل کرے‘ اپنی انفرادی زندگی میں فی الفور اور اس کے عطا کردہ قانون و آئین کے نفاذ اور نظام عدل و قسط کے قیام کی اجتماعی جدوجہد میں بھرپور حصہ لے کر‘ اور پانچویں یہ کہ اس کو دوسروں تک پہنچائے اور اس کے لیے بہترین مساعی کو بروئے کار لائے.
واقعہ یہ ہے کہ اگر مسلمان اس طور پر قرآن کے ساتھ اپنے تعلق کی تجدید کر لیں تو اس سے ان کے اندر ذہنی و جذباتی ہم آہنگی اور مقصد اور نصب العین کی یکجہتی پیدا ہو گی جس سے تشتت و انتشار کی موجودہ کیفیت کافور ہو جائے گی اور مسلمان ازسرِ نو بنیانِ مرصوص بن جائیں گے-اور نبی اکرم ﷺ کا یہ فرمان ایک زندہ حقیت بن کر سامنے آجائے گا کہ ’’اِنَّ اللہَ یَرْفَعُ بِھٰذَا الْکِتَابِ اَقْوَامًا وَّ یَضَعُ بِہٖ اٰخَرِیْنَ‘‘. (مسلمؒ عن ابن عمرؓ ) یعنی ’’ اللہ اس قرآن کا دامن تھامنے کے باعث قوموں کو سربلندی عطا فرمائے گا اور اس کو پسِ پشت ڈالنے والی قوموں کو ذلیل و خوار کرے گا.‘‘ جس کی بہترین تعبیر علامہ اقبال نے اپنے الہامی اشعار میں کی ہے ؎
خوار از مہجوریٔ قرآں شدی
شکوہ سنجِ گردشِ دوراں شدی
اے چو شبنم بر زمیں افتندہئٖ
در بغل داری کتابِ زندہئٖ
-یعنی اے امت مسلمہ درحقیقت تو قرآن سے دوری کے باعث ذلیل و خوار ہوئی ہے. اس ضمن میں گردشِ دوراں کا شکوہ بے بنیاد ہے -اور اے وہ قوم جو زمین پر شبنم کے مانند گری ہوئی ہے (جسے اغیار پامال کر رہے ہیں)تیری بغل میں اب بھی زندہ کتاب یعنی قرآن مجید موجود ہے.
الغرض یہ ہیں وہ دو نکات جن پر عمل پیرا ہونے سے ایک انسان انفرادی طور پر ایک بندۂ مومن بنتا ہے اور پھر ان افراد کے مجموعے سے ایک مضبوط اجتماعیت وجود میں آتی ہے. اس کے بعد یہ سوال سامنے آتا ہے کہ اس اجتماعیت کے لیے لائحہ عمل کون سا ہے؟ تو اس کا بیان اگلی آیت میں آرہا ہے اور حسن اتفاق سے یہ اجتماعی لائحہ عمل بھی تین نکات ہی پر مشتمل ہے.