سورۂ آل عمران کی آیت نمبر ۱۱۰ میں امت محمد  کو یہ سند عطا فرمائی گئی ہے کہ ’’تم وہ بہترین امت ہو جسے نوعِ انسانی کے لیے برپا کیا گیا ہے‘ تم نیکی کا حکم دیتے ہو‘ بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر پختہ ایمان رکھتے ہو! -گویا پوری امت مسلمہ کا مقصدِ وجود ہی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے‘ اور اصلاً مطلوب یہ ہے کہ پوری امت ایک جسدِ واحد کے مانند ہو اور اس کا اجتماعی نصب العین ہی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بن جائے‘ پھر یہ بھی جانی پہچانی حقیقت ہے کہ جہاں اجتماعیت میں زیادہ سے زیادہ اتحاد و یگانگت سے نصب العین کی جانب پیش قدمی میں مزید شدت وقوت پیدا ہوتی ہے‘ وہاں نصب العین کے ساتھ زیادہ سے زیادہ قلبی و جذباتی وابستگی بجائے خود اجتماعیت کو مزید تقویت و استحکام بخشنے کا ذیعہ بن جاتی ہے اور اس طرح قدم آگے سے آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں. 

لیکن ظاہر ہے کہ یہ مطلوبہ اور مثالی و معیاری کیفیت ہمیشہ برقرار نہیں رہتی. جیسا کہ خود امّتِ مسلمہ کی تاریخ سے معلو ہوتا ہے کہ تین یا چار نسلوں تک تو یہ کیفیت برقرار رہی لیکن اس کے بعد نصب العین سے وابستگی میں ضعف پیدا ہونا شروع ہو گیا اور اس کے نتیجے میں امت کی وحدت اور یگانگت میں بھی دراڑیں پیدا ہونی شروع ہو گئیں. تاآنکہ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ امت واحدہ کا تصور تو صرف ذہنوں میں باقی رہ گیا ہے. بالفعل اس وقت دنیا میں ایک امت مسلمہ کی بجائے بے شمارمسلمان اقوام اور قومیتیں موجود ہیں.

قرآن حکیم چونکہ ایک ابدی ہدایت نامہ ہے‘ لہذا اس نے ایسی صورت حال کے لیے بھی پیشگی ہدایت عطا فرما دی تھی جو اسی سورۂ مبارکہ کی آیت نمبر ۱۰۴ میں وارد ہوئی ہے‘ جس پر تفصیلی گفتگو صفحاتِ گزشتہ میں ہو چکی ہے اور جس کا خلاصہ اور لُبّ لباب یہ ہے کہ اس منتشر اور خوابیدہ امت میں سے جو لوگ جاگ جائیں اور انہیں اپنے اجتماعی فرائض کا شعور و ادراک حاصل ہو جائے وہ باہم جمع ہوں اور مل جُل کر اُس خیالی و تصوراتی اور خوابیدہ و معطل امت کے دائرے کے اندر اندر ایک چھوٹی مگر فعال اور منظم امت وجود میں لائیں جو اس اجتماعی نصب العین کی جانب پیش قدمی شروع کر دے. پھر جیسے جیسے نشانِ منزل نمایاں ہوتا جائے گا زیادہ سے زیادہ لوگ اس قافلے میں شامل ہوتے جائیں گے اور وہ صورت عملاً پیدا ہو جائے گی کہ ؎

میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
راہرو ملتے گئے اور قافلہ بنتا گیا!

تاآنکہ پوری اُمت مسلمہ کو اپنا بھولا ہوا سبق یاد آجائے گا اور وہ نقشہ بالفعل نگاہوں کے سامنے آجائے گا جس کا خواب نصف صدی پیشتر حکیم الامت علامہ اقبال مرحوم و مغفور نے دیکھا تھا‘ یعنی ؎

آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش 
اور ظلمت رات سیماب پا ہو جائے گی
آملیں گے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک
بزمِ گُل کی ہم نفس بادِ صبا ہو جائے گی
پھر دلوں کو یاد آجائے گا پیغام سجود
پھر جبیں خاکِ حرم سے آشنا ہو جائے گی
شب گریزاں ہو گی آخر جلوۂ خورشید سے
یہ چمن معمور ہو گا نغمۂ توحید سے

اب اصلاً تو ہمیں آگے بڑھ کر اس امر پر غور کرنا ہے کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا نبوی طریقِ کار کیا ہے‘ اور اس کے لیے نبی اکرم  نے کیا حکمتِ عملی اختیار فرمائی تھی. اس لیے کہ حضرت ابوبکرؓ کے ایک حکیمانہ قول کے مطابق جسے امام مالکؒ نے زندۂ جاوید بنا دیا اس امت کے آخری حصّے کی اصلاح اور تعمیر نو صرف اسی طریق پر ممکن ہے جس پر اس کے پہلے حصے کی اصلاح ہوئی تھی-لیکن اس سے قبل-اُمّت مسلمہ کے اتحاد کی اہمیت اور اس کے اجتماعی نصب العین کی وضاحت کے ضمن میں امیر تبلیغ مولانا محمد یوسف ؒ کی زندگی کی آخری تقریر سے نہایت اہم اور ایمان افروز اقتباس پیش کیا جاتا ہے تاکہ موضوع اکی اہمیت مزید نکھر کر سامنے آجائے اور خاص طور پر یہ امرپوری طرح مبرہن ہو جائے کہ مسلمانوں کے امت ہونے کی اہمیت کیا ہے جس کے لیے مولانا موصوفؒ نے دہلی اور اس کے گرد و نواح کے محاورے کے مطابق ’اُمّت پنا‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے.

واضح رہے کہ مولانا محمد یوسفؒ سلسلۂ تبلیغ کے بانی اور مؤسّس مولانا محمد الیاسؒ کے فرزند ارجمند اور ہر اعتبار سے خلف الرشید تھے اور انہوں ے اپنے والد بزرگوارؒ کے انتقال کے بعد جس طرح ان کے جاری کردہ مشن ہی کے لیے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اور اپنی قوتوں اور توانائیوں کی آخری رمق تک وقف کر دی تھی‘ وہ بہت سے دین کے خادموں اور اُن کی اولاد کے لیے قابلِ رشک بھی ہے اور قابلِ تقلید بھی. انہوں نے اپنے انتقال سے صرف تین دن قبل یعنی ۳۰ مارچ ۱۹۶۵؁ کو بعد نماز فجر رائے ونڈ مرکز تبلیغ میں تقریر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا