زورِ کلام اور انتہائی تاکید و توثیق

چوتھا اور آخری نتیجہ جو اس مختصر سی سورت کی عبارت کے تجزیے سے حاصل ہوتا ہے، یہ ہے کہ متذکرہ بالا تینوں نتائج سرسری نہیں بلکہ انتہائی مؤکد اور مؤثق ہیں اور اس میں ہرگز کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں، اس لیے کہ اوّل تو ہمارا ایمان ہے کہ قرآن مجید اللہ کا کلام ہے اور اللہ کی فرمائی ہوئی بات اپنی صداقت اور حقانیت پر خود آپ ہی دلیل کامل ہے: وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰہِ قِیْلاً (اور اپنے قول میں خدا سے زیادہ سچا اور کون ہو سکتا ہے؟)لیکن اس پر اکتفا نہیں بلکہ خود خدا نے بھی ان حقائق پر قسم کھائی ہے اور اس طرح یہ کلام انتہائی مؤکد ہو گیا ہے، اور اس میں جو حقائق مضمر ہیں اور انسان کے لیے جو سبق پنہاں ہیں وہ سب انتہائی یقینی اور ہر قسم کے شکوک و شبہات سے منزہ اور مبرا ہیں. یعنی یہ کہ یقینا نوعِ انسانی بحیثیت مجموعی گھاٹے اور خسارے سے دو چار ہونے والی ہے اور ہلاکت و تباہی کا نوالہ بننے والی ہے، سوائے ان افرادِ نوع انسانی کے جو ایمان، عمل صالح، تواصی بالحق اور تواصی بالصبر چاروں لوازم کو پورا کریں اور نجات کی اس کسوٹی پر بحیثیت مجموعی پورے اتریں.

الغرض یہ ہیں وہ چار بنیادی نتائج جو اِس سورۂ مبارکہ پر بحیثیت مجموعی ادنیٰ تأمل اور سرسری غور و فکر سے حاصل ہوتے ہیں. گویا یہ ہے تذکر کی سطح پر سورۃ العصر کا اصل ماحصل!

………(۳)………
اب میں چاہتا ہوں کہ آپ حضرات اس سورۂ مبارکہ کے ایک ایک لفظ کو قدرے گہرائی میں اُتر کر سمجھنے کی کوشش کریں، اور بطورِ خود دیکھیں کہ اس سورۂ عظیمہ کی ظاہری سلاست کے پردوں میں کیسے کیسے عظیم حقائق مضمر ہیں اور کیسی کیسی اعلیٰ حکمتیں اور دانائیاں پنہاں ہیں اور اس طرح غالب ؔ مرحوم کے اس شعر سے بھی لطف اندوز ہوں کہ ؎

گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھئے!
جو لفظ کہ غالبؔ مرے اشعار میں آوے
اور اس کے اس مصرے کو بھی داد دیں کہ:
زیر ہر ہر لفظ غالبؔ چیدہ ام میخانۂ

اس لیے کہ غالب نے اپنے کلام کے بارے میں تو یہ باتیں بس شاعرانہ تعلی ہی میں کہہ دی ہیں، لیکن قرآنِ حکیم واقعتہً ان کا مصداقِ کامل ہے.