جس طرح ہم دیکھ چکے ہیں کہ ایمان اور عمل صالح کا چولی دامن کا ساتھ ہے، اِسی طرح تواصی بالحق اور تواصی بالصبر بھی باہم لازم و ملزوم ہیں. اس لیے کہ حق کی دعوت کو دُنیا میں بالعموم گوارا نہیں کیا جاتا اور اس کی مزاحمت لازماً ہوتی ہے، چنانچہ اہل حق کو لازماً تکالیف اور مصائب کا سامنا رہتا ہے.
ہم سب کو اس کا تجربہ ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی نصیحت بھی بسااوقات لوگوں کو سخت ناگوار معلوم ہوتی ہے. مثال کے طور پر اگر کسی شخص کو کسی دوسرے کے پانچ روپے ادا کرنے ہوں اور وہ لیت و لعل سے کام لے رہا ہو اور آپ اس سے کہیں کہ بھلے آدمی اس کے پانچ روپے ادا کر دو، تو اس کی تیوری پر بل پڑ جائیں گے اور وہ آپ سے سخت طیش میں کہے گا کہ آپ کون ہوتے ہیں ہمارے معاملے میں دخل دینے والے؟ اس پر قیاس کر لیجئے کہ جب بڑے بڑے حقوق کی ادائیگی کی تلقین ہو تو کیسی کچھ ناگواری (RESENTMENT) کا سامنا کرنا ہو گا اور کتنی مزاحمت و مخالفت سے سابقہ پیش آئے گا.
اوریہی مقام اصل میں انسان کی سیرت و کردار کے امتحان کا ہے. واقعہ یہ ہے کہ حق کی پہچان اور اس کی معرفت اتنی مشکل نہیں جتنا اس کو خود بھی اختیار کرنا اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دینا اور پھر اس راہ میں ثابت قدم رہنا، جسے قرآن مجید کی اصطلاح میں ’’استقامت‘‘ کہتے ہیں. اسی مرحلہ پر آ کر معلوم ہوتا ہے کہ کون کتنے پانی میں ہے اور آیا سیرت و کردار نام کی کوئی چیز اس کے پاس موجود ہے یا نہیں! یہی وجہ ہے کہ قرآنِ حکیم میں بڑے شدومد (EMPHASIS) اور نہایت تاکید و توثیق کے ساتھ یہ حقیقت بیان ہوئی کہ اہل ایمان کو لازماً امتحان اور ابتلاء و آزمائش سے سابقہ پیش آتا ہے اور ان کے دعویٰٔ ایمان کی صداقت کو طرح طرح سے جانچا او رپرکھا جاتا ہے، اور صادق الایمان وہی قرار پاتے ہیں جو ان امتحانات میں ثابت قدم رہیں اور صبر و استقلال کا عملی ثبو ت پیش کریں.