ایمان اور عمل صالح کے ضمن میں اس کتاب کی تعبیرات کی تصویب

مولانا محمد طاسین مدظلہ


ناظم ادارۂ مجلس علمی، کراچی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

راہِ نجات‘‘ سورۃ العصرکی روشنی میں‘‘ کے عنوان سے محترم جناب ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کا کتابچہ بغور پڑھنے کا موقع ملا، جو دراصل موصوف کی ایک اصلاحی تقریر پر مشتمل ہے، جو انہوں نے داعیانہ اسلوب سے کالج کے اساتذہ اور طلبہ کے سامنے ارشاد فرمائی. چونکہ اس تقریر کا موضوع قرآنِ مجید کی سورۃ العصر تھا، لہذا یہ سورۃ العصر کی تفسیر بن گئی. اس کو پڑھنے کے بعد میں اپنے علم و فہم کے مطابق یہی کہہ سکتا ہوں کہ بطورِ تفسیر اس میں جو کچھ فرمایا گیا ہے وہ صحیح و درست ہے، میں نے اس کے اندر کوئی غلط و قابل اعتراض بات نہیں پائی. اس میں بندے کی نجات کے لیے ایمان کے ساتھ عمل صالح کی اہمیت پر جو خاص زور دیا گیا ہے وہ خود قرآن حکیم کی سینکڑوں آیات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیسیوں احادیث سے پوری مطابقت رکھتا ہے. ایمان کے ساتھ عمل صالح بھی نجات کے لیے ضروری ہے، اس کا اظہار جس طرح قرآن مجید کی ان آیات سے ہوتا ہے جن میں ایمان کے ساتھ ضرور عمل صالح کا ذکر اور دونوں کے مجموعے پر جزاء کا بیان ہے. اِس طرح اُن قرآنی آیات سے بھی بخوبی معلوم ہوتا ہے جن میں یہ بیان ہے کہ قیامت کے دن یا آخرت میں جنت اور جہنم والوں سے کہا جائے گا کہ یہ تمہارے اُن اعمال کی جزاء ہے جو تم دنیا میں کرتے رہے تھے، 
`مثلاً یہ آیت:

تِلْکَ الْجَنَّۃُ الَّتِیْ اُوْرِثْتُمُوْھَا بِمَا کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ

اور یہ آیت:
اُدْخُلُوا الْجَنَّۃَ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ 

اور یہ آیت:
اُوْلٰٓئِکَ اَصْحَابُ الْجَنَّۃِ خَالِدِیْنَ فِیْھَا جَزَائً ۘ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ 

اور یہ آیت:
لِکُلِّ دَرَجَاتٌ مِّمَّا عَمِلُوْا 

اور یہ آیت:
ھَلْ یَجُزَوْنَ اِلَّا مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ 

اور یہ آیت:
ذُوْقُوْا عَذَابَ الْخُلْدِ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ 

اور یہ آیت:
وَلاَ تُجْزَوْنَ اِلاَّ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ 

اس قسم کی قرآنی آیات صاف بتلاتی ہیں کہ اُخروی جزاء و سزا کا دارو مدار انسان کے اعمال پر ہے.

میں محترم ڈاکٹر صاحب کی اس بات سے بھی پوری طرح متفق ہوں کہ جب دل میں ایمان اپنی صحیح شکل سے موجود ہو تو انسان سے نیک اعمال ضرور سر زد اور صادر ہوتے ہیں، ان کے درمیان لازم و ملزوم کا سا تعلق ہے. ایمان کی ماہیت اور فطرت میں صالح اعمال کا تقاضا موجود ہے، گویا ایمان کی خارجی اور معروضی شکل کا نام اعمال صالحہ ہے اور یہ کہ اعمال صالحہ ایمان سے غیر متعلق کوئی الگ چیز نہیں.

سورۃ العصر کی تفسیر میں ڈاکٹر صاحب نے کہیں یہ نہیں فرمایا کہ عمل صالح کے بغیر ایمان کا کچھ اعتبار اور فائدہ نہیں، یا یہ کہ بد عمل مؤمن یعنی فاسق ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور اس کے لیے کبھی نجات نہیں. اگر ایسا فرماتے تو صرور گرفت ہو سکتی تھی، لیکن اُن کی کسی عبارت سے ایسا ظاہر نہیں ہوتا اور اگر کسی عبارت میں دُور کا کچھ احتمال تھا تو وہ اُن کی وضاحت کے بعد ختم ہو گیا، اب اس کی کوئی گنجاش باقی نہیں رہی. میں سمجھتا ہوں لزوم اور التزام میں جو فرق ہے اس کو ملحوظ نہ رکھنے کی وجہ سے اعتراض کی گنجائش پید اہو جاتی ہے.

حررہ محمد طاسین
مجلس علمی، کراچی