کلام ہونے کے حوالے سے تیسری بات یہ نوٹ کیجئے کہ کلام اللہ کی صفت ہے اور اللہ کی صفات قدیم ہیں. اللہ کی ذات کی طرح اس کی صفات کا بھی یہی معاملہ ہے. ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ مادیت اور جسمانیت سے ماوراء ہے.یہی معاملہ اللہ کی صفات کا بھی ہے. چنانچہ کلام اللہ‘ جسے حرف و صوت کی محدودیت سے اعلیٰ و ارفع خیال کیا جاتا ہے ‘ اسے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے حروف و اصوات کا جامہ پہنایا اور سید المرسلینﷺ کے قلبِ مبارک پر بطریقِ تنزیل نازل فرمایا. یہی کلام لوحِ محفوظ میں اللہ کے پاس مندرج ہے جسے اُمّ الکتاب یا کتابِ مکنون بھی کہا گیا ہے. ہمارے پاس موجود قرآن مجید یا مصحف کی عبارت بعینہٖ وہی ہے جو لوحِ محفوظ یا اُم الکتاب میں ہے‘ بالکل اسی طرح جیسے کسی دستاویز کی مصدقہ نقل ہو‘ جو بغیر کسی شوشے کے فرق کے اصل کے مطابق ہو. چنانچہ سورۃ البروج میں فرمایا:
بَلۡ ہُوَ قُرۡاٰنٌ مَّجِیۡدٌ ﴿ۙ۲۱﴾فِیۡ لَوۡحٍ مَّحۡفُوۡظٍ ﴿٪۲۲﴾
’’یہ قرآن نہایت بزرگ و برتر ہے اور یہ لوحِ محفوظ میں ہے.‘‘
اسی کے متعلق سورۃ الواقعہ میں ارشاد فرمایا گیا:
اِنَّہٗ لَقُرۡاٰنٌ کَرِیۡمٌ ﴿ۙ۷۷﴾فِیۡ کِتٰبٍ مَّکۡنُوۡنٍ ﴿ۙ۷۸﴾لَّا یَمَسُّہٗۤ اِلَّا الۡمُطَہَّرُوۡنَ ﴿ؕ۷۹﴾
’’یہ تو ایک کتاب ہے بڑی کریم ‘بہت باعزت ‘اور ایک ایسی کتاب ہے جو چھپی ہوئی ہے. جسے چھو ہی نہیں سکتے مگر وہی جو بہت ہی پاک کر دیے گئے ہیں‘‘.
یعنی ملائکہ مقربین ‘جن کے بارے میں ایک اور مقام پر فرمایا گیا:
فِیۡ صُحُفٍ مُّکَرَّمَۃٍ ﴿ۙ۱۳﴾مَّرۡفُوۡعَۃٍ مُّطَہَّرَۃٍۭ ﴿ۙ۱۴﴾بِاَیۡدِیۡ سَفَرَۃٍ ﴿ۙ۱۵﴾کِرَامٍۭ بَرَرَۃٍ ﴿ؕ۱۶﴾ (عبس)
’’یہ ایسے صحیفوں میں درج ہے جو مکرم ہیں‘ بلند مرتبہ ہیں‘ پاکیزہ ہیں‘ معزز اور نیک کاتبوں کے ہاتھوں میں رہتے ہیں.‘‘
درحقیقت یہ کتاب مکنون ان فرشتوں کے پاس ہے‘ وہ تمہاری رسائی سے بعید و ماوراء ہے.
یہی بات سورۃ الزخرف میں کہی گئی ہے:
وَ اِنَّہٗ فِیۡۤ اُمِّ الۡکِتٰبِ لَدَیۡنَا لَعَلِیٌّ حَکِیۡمٌ ؕ﴿۴﴾
’’یہ تو درحقیقت اصل کتاب میں ہمارے پاس محفوظ ہے‘ بڑی بلند مرتبہ اور حکمت سے لبریز ‘‘.
اُمٌّ کا لفظ جڑ اور بنیاد کے لیے آتا ہے. اسی لیے ماں کے لیے بھی عربی میں لفظ ’’اُمّ‘‘ استعمال ہوتا ہے ‘کیونکہ اسی کے بطن سے اولاد کی ولادت ہوتی ہے‘ وہ گویا کہ بمنزلۂ اساس ہے. چنانچہ اس کتاب کی اصل اساس لوحِ محفوظ میں ہے‘ کتابِ مکنون میں ہے. مزیدوضاحت کر دی گئی کہ ’’لَدَیْنَا‘‘ یعنی وہ اُمّ الکتاب جو ہمارے پاس ہے‘ اس میں یہ قرآن درج ہے. ’’لَعَلِیٌّ حَکِیْمٌ‘‘ اس قرآن کی صفات یہ ہیں کہ وہ بہت بلند و بالا اور حکمت والا ہے ‘ مستحکم ہے. وہ اللہ کا کلام اور نہایت محفوظ کتاب ہے. اسے لوحِ محفوظ کہیں ‘کتابِ مکنون کہیں‘ یا اُمّ الکتاب کہیں‘اصل کلام وہاں ہے اُسی عالم غیب میں‘ اُسی عالم امر میں جسے سوائے اُن پاک باز فرشتوں کے جن کی رسائی لوحِ محفوظ تک ہو‘ کوئی مَس نہیں کر سکتا‘ یعنی اس لوحِ محفوظ کے مضامین پر مطلع نہیں ہو سکتا. البتہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے محمدٌ رسول اللہﷺ پر اپنے اس کلام کی تنزیل فرمائی اور اس کی عبارت کو تاقیامِ قیامت مصاحف میں محفوظ فرما دیا اور ناپاک ہاتھوں سے چھونے سے منع فرما دیا.