جب میں نے عرض کیا کہ قرآن اللہ کا کلام ہے تو یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان سے کس طرح ہم کلام ہوتا ہے! قرآن مجید میں اس کی تین شکلیں بیان ہوئی ہیں:

وَ مَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنۡ یُّکَلِّمَہُ اللّٰہُ اِلَّا وَحۡیًا اَوۡ مِنۡ وَّرَآیِٔ حِجَابٍ اَوۡ یُرۡسِلَ رَسُوۡلًا فَیُوۡحِیَ بِاِذۡنِہٖ مَا یَشَآءُ ؕ اِنَّہٗ عَلِیٌّ حَکِیۡمٌ ﴿۵۱﴾ (الشوریٰ)

’’کسی بشرکا یہ مقام نہیں ہے کہ اللہ اس سے روبرو بات کرے. اس کی بات یا تو وحی (اشارے) کے طور پر ہوتی ہے‘ یا پردے کے پیچھے سے‘ یا پھر وہ کوئی پیغامبر (فرشتہ) بھیجتا ہے اور وہ اس کے حکم سے جو کچھ وہ چاہتا ہے وحی کرتا ہے. یقینا وہ برتر اور صاحب حکمت ہے.‘‘
ن
وٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ یہ نہیں فرمایا کہ اللہ کے لیے یہ ممکن نہیں ہے‘ اللہ تو ہر شے پر قادر ہے‘ وہ جو چاہے کر سکتا ہے‘ اللہ کی قدرت سے کوئی چیز بعید نہیں ہے ‘بلکہ کہا کہ انسان کا یہ مقام نہیں ہے کہ اللہ اس سے براہ راست کلام کرے‘ کسی بشر کا یہ مرتبہ نہیں ہے کہ اللہ اس سے کلام کرے‘ سوائے تین صورتوں کے‘ یا تو وحی یعنی مخفی اشارے کے ذریعے سے‘ یا پردے کے پیچھے سے یا وہ کسی رسول (رسولِ مَلَک) کو بھیجتا ہے جو وحی کرتا ہے اللہ کے حکم سے جو اللہ چاہتا ہے.

اب کلامِ الٰہی کی مذکورہ تین شکلیں ہمارے سامنے آئی ہیں. ان میں سے دو کے لیے لفظ وحی آیا ہے. درمیان میں ایک شکل ’’ مِنۡ وَّرَآءِ حِجَابٍ ؕ ‘‘ بیان ہوئی ہے.اس کا تذکرہ سورۃ الاعراف کی آیت۱۴۳ کے ذیل میں ہو چکا ہے. اور یہ تو امرواقعہ ہے ہی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے متعدد مواقع پر اس صورت میں کلام فرمایا.

پہلی مرتبہ حضرت موسیٰ ںجب آگ کی تلاش میں کوہِ طور پر پہنچے تو وہاں مخاطبہ ہوا. یہ مخاطبہ اور مکالمۂ الٰہی حضرت موسٰی ؑ کے ساتھ ’’ مِنۡ وَّرَآءِ حِجَابٍ ؕ ‘‘ ہوا تھا‘ اسی لیے تو وہ آتش شوق بھڑکی تھی کہ ؎

کیا قیامت ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں 
صاف چھپتے بھی نہیں ‘سامنے آتے بھی نہیں! 

ظاہر ہے کہ جب ہم کلام ہونے کا شرف حاصل ہو رہا ہے تو ایک قدم اور باقی ہے کہ مجھے دیدار بھی عطا ہو جائے ‘لیکن یہ مخاطبہ مِنۡ وَّرَآءِ حِجَابٍ ؕ تھا. نبی اکرم سے یہی مخاطبہ شب معراج میں پردے کے پیچھے سے ہوا. بعض حضرات کی رائے ہے کہ حضور کو اللہ تعالیٰ (یعنی ذاتِ الٰہی) کا دیدار حاصل ہوا‘ لیکن میری رائے سلف میں سے ان حضرات کے ساتھ ہے جو اس کے قائل نہیں ہیں. ان میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بڑی اہمیت کی حامل ہیں‘ انہوں نے حضور سے لازماً ان چیزوں کے بارے میں استفسار کیا ہو گا‘ چنانچہ ان کی بات کے متعلق تو ہم یقین کے درجے میں کہہ سکتے ہیں کہ وہ محمدٌرسول اللہ سے مرفوع ہے. حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ ’’نُوْرٌ اَنّٰی یُرٰی؟‘‘ یعنی اللہ تو نور ہے ‘اسے کیسے دیکھا جا سکتا ہے؟ (مسلم‘ کتاب الایمان‘ عن ابی ذر رضی اللہ عنہ) نور تو دوسری چیزوں کو دیکھنے کا ذریعہ بنتا ہے‘ نور خود کیسے دیکھا جا سکتا ہے! بہرحال میری رائے ہے کہ یہ گفتگو بھی من وراء حجاب تھی. وہ وراء حجاب گفتگو جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کوہ طور پر مکالمہ و مخاطبہ میں نصیب ہوئی‘ اسی وراء حجاب ملاقات اور گفتگو سے اللہ تعالیٰ نے محمدٌ رسول اللہ  کو شب معراج میں ’’عِنۡدَ سِدۡرَۃِ الۡمُنۡتَہٰی‘‘ مشرف فرمایا . 

البتہ وحی براہِ راست بھی ہے‘ یعنی بغیر فرشتہ کے واسطہ کے. دوسری قسم کی وحی فرشتے کے ذریعے سے ہے اور قرآن مجید سے جس بات کی طرف زیادہ راہنمائی ملتی ہے وہ یہ ہے کہ قرآن وحی ہے بواسطہ ’’مَلَک‘‘. جیسے قرآن مجید میں ہے: نَزَلَ بِہِ الرُّوۡحُ الۡاَمِیۡنُ ﴿۱۹۳﴾ۙعَلٰی قَلۡبِکَ... (الشعراء:۱۹۴’’اسے لے کر آپ کے دل پر روحِ امین اترا ہے…‘‘ اور: فَاِنَّہٗ نَزَّلَہٗ عَلٰی قَلۡبِکَ (البقرۃ:۹۷’’پس اسے جبریل نے ہی آپ کے قلب پر نازل کیا ہے‘‘.البتہ فرشتے کے بغیر وحی‘ یعنی دل میں کسی بات کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے براہ راست ڈال دیا جانا‘ یعنی ’’الہام‘‘ کا ذکر بھی حضور نے کیا ہے اور اس کے لیے حدیث میں ’’نَفَث فِی الرَّوع‘‘ کے الفاظ بھی آئے ہیں. یعنی کسی نے دل میں کوئی بات ڈال دی ‘ کسی نے پھونک مار دی بغیر اِس کے کہ کوئی آواز سننے میں آئی ہو. ایک کیفیت صلصلۃ الجرس کی بھی تھی. حضورؐ ‘ کو گھنٹیوں کی سی آواز آتی تھی اور اس کے بعد حضور کے قلبِ مبارک پر وحی نازل ہوجاتی تھی.

بہرحال تیقّن کے ساتھ تو مَیں نہیں کہہ سکتا ‘لیکن میرا گمانِ غالب ہے کہ دوسری قسم کی وحی (بذریعۂ فرشتہ) پر پورے کا پورا قرآن مشتمل ہے. اور وحی براہِ راست یعنی ’’القاء‘‘ تو درحقیقت وحی خفی ہے‘ جس کی وضاحت انگریزی کے دو الفاظ کے درمیان فرق سے بخوبی ہو جاتی ہے. ایک لفظ ہے‘ inspiration اور دوسرا‘ revelation‘ جس کے ساتھ ایک اور لفظ verbal revelation بھی اہم ہے.inspiration میں ایک مفہوم‘ ایک خیال یا تصور انسان کے ذہن و قلب میں آ جاتا ہے‘ جب کہ ‘ revelation باقاعدہ کسی چیز کے کسی پر reveal کیے جانے کو کہتے ہیں. اور اس میں بھی عیسائیوں کے ہاں ایک بڑی بحث چل رہی ہے. وہ revelation کو مانتے ہیں لیکن verbal revelation کو نہیں مانتے‘ بلکہ ان کے نزدیک صرف مفہوم ہی انبیاء کے قلوب پر نازل کیا جاتا تھا‘ جسے وہ اپنے الفاظ میں ادا کرتے تھے. جبکہ ہمارے ہاں اس بارے میں مستقل اجماعی عقیدہ ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے جو محمد رسول اللہ پر نازل ہوا .یہ لفظاً بھی وحی ہے اور معناً بھی‘ لفظاً بھی اللہ کا کلام ہے اور معناً بھی‘ یعنی یہ‘ verbal revelation ہے. 
اس ضمن میں ایک دلچسپ واقعہ لاہور ہی میں غالباً ایف سی کالج کے پرنسپل اور علامہ اقبال کے درمیان پیش آیا تھا. وہ دونوں کسی دعوت میں اکٹھے تھے کہ ان صاحب نے حضرتِ علامہ سے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ بھی 
verbal revelation کے قائل ہیں! اس پر علامہ نے اُس وقت جو جواب دیا وہ اُن کی ذہانت پر دلالت کرتا ہے. انہوں نے کہا کہ جی ہاں‘ میں‘ verbal revelation کو نہ صرف مانتا ہوں‘ بلکہ مجھے تو اس کا ذاتی تجربہ حاصل ہے .چنانچہ خود مجھ پر جب شعر نازل ہوتے ہیں تو وہ الفاظ کے جامے میں ڈھلے ہوئے آتے ہیں‘ میں کوئی لفظ بدلنا چاہوں تو بھی نہیں بدل سکتا‘ معلوم ہوتا ہے کہ وہ میری اپنی تخلیق نہیں ہیں بلکہ مجھ پر نازل کیے جاتے ہیں .تو یہ درحقیقت کسی کو جواب دینے کا وہ انداز ہے جس کو عربی میں ’’الاجوبۃ المُسکتۃ‘‘ یعنی چپ کرا دینے والا جواب کہا جاتا ہے. یہ وہ جواب ہے جس کے بعد فریق ثانی کے لیے کسی قیل و قال کا موقع ہی نہیں رہتا. 

بہرحال کلام الٰہی واقعتا verbal revelation ہے جس نے اوّلاً قولِ جبرائیل کی شکل اختیار کی.حضرت جبرائیل ؑ کے ذریعے قول کی شکل میں نازل ہوا . اور پھر زبانِ محمدیؐ سے قولِ محمدیؐ کی شکل میں ادا ہوا.تو یہ درحقیقت revelation ہے inspiration نہیں‘ اور محض revelation بھی نہیں بلکہ verbal revelation ہے‘ یعنی معانی‘ مفہوم اور الفاظ سب کے سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور یہ بحیثیت مجموعی اللہ کاکلام ہے.