قرآن کریم کا زمانۂ نزول اور ارضِ نزول

رسول اللہ  پر قرآن کے نزول کے ضمن میں اب دو چھوٹی چھوٹی چیزیں اور نوٹ کر لیجیے. یہ صرف معلومات کے ضمن میں ہیں. اس کا زمانہ نزول کیا ہے؟ ہم جس حساب (سن عیسوی) سے بات کرنے کے عادی ہیں‘ اسی حساب سے ہمارے ذہن کا صغریٰ کبریٰ بنا ہوا ہے. اس اعتبار سے نوٹ کر لیجیے کہ قرآن حکیم کا زمانۂ نزول ۶۱۰ء سے ۶۳۲ء تک ۲۲ برس پر مشتمل ہے. قمری حساب سے یہ۲۳برس بنیں گے. ۴۰ عام الفیل سے شروع کریں تو ۱۲ سال قبل ہجرت اور ۱۱ ہجری سال مل کر ۲۳ سال قمری بنیں گے‘ جن کے دوران یہ قرآن بطرزِ تنزیل تھوڑا تھوڑا کر کے نازل ہوا. صحیح احادیث میں یہ شہادت موجود ہے کہ پہلے سورۃ العلق کی پانچ آیات نازل ہوئیں ‘پھر تین سال کا وقفہ آیا . سورۃ العلق کی یہ پانچ آیات بھی چونکہ قرآن مجید کا حصہ ہیں‘ لہذا صحیح قول یہی ہے کہ قرآن حکیم کا زمانہ نزول ۲۳قمری یا۲۲ شمسی سال ہے.

اب یہ کہ نزول کی جگہ کون سی ہے؟ اس ضمن میں صرف ایک لفظ نوٹ کر لیجیے کہ تقریباً پورے کا پورا قرآن ’’حجاز ‘‘میں نازل ہوا. اس لیے کہ آغازِ وحی کے بعد حضور اکرم کا کوئی سفر حجاز سے باہر ثابت نہیں ہے . آغازِ وحی سے قبل آپ نے متعدد سفر کیے ہیں.آپؐ شام کا سفر کرتے تھے‘ یقینا یمن بھی آپؐ جاتے ہوں گے. اس لیے کہ الفاظِ قرآنی ’’ رِحۡلَۃَ الشِّتَآءِ وَ الصَّیۡفِ‘‘ کی رو سے قریش کے سالانہ دوسفر ہوتے تھے. گرمیوں کے موسم میں شمال کی طرف جاتے تھے‘ اس لیے کہ فلسطین کا علاقہ نسبتاً ٹھنڈا ہے‘ اور سردیوں کے موسم میں وہ جنوب کی طرف (یمن ) جاتے تھے‘ اس لیے کہ وہ گرم علاقہ ہے. تو حضور اکرم نے بھی تجارتی سفر کیے ہیں. بعض محققین نے تو یہ امکان بھی ظاہر کیا ہے کہ آپؐ نے اُس زمانے میں کوئی بحری سفر بھی کیا اور گلف کو عبور کر کے مکران کے ساحل پر کسی جگہ آپؐ تشریف لائے (واللہ اعلم!).

یہ بات میں نے ڈاکٹر حمید اللہ صاحب کے ایک لیکچر میں سنی تھی جو انہوں نے حیدرآباد (سندھ) میں دیا تھا‘ لیکن بعد میں اس پر جرح ہوئی کہ یہ بہت ہی کمزور قول ہے اور اس کے لیے کوئی سند موجود نہیں ہے.البتہ ’’الخُبر‘‘ جہاں آج آباد ہے وہاں پر تو ہر سال ایک بہت بڑا تجارتی میلہ لگتا تھا اور حضور کا وہاں تک آنا ثابت ہے. بہرحال آپ کو معلوم ہے کہ حضور آغازِ وحی کے بعد دس سال تک تو مکہ مکرمہ میں رہے ‘اس کے بعد طائف کا سفر کیا ہے. پھر آس پاس ’’عکاظ‘‘کا میلہ لگتا تھا اور منڈیاں لگتی تھیں‘ ان میں آپ نے سفر کیے ہیں. پھر آپ نے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی ہے. اس کے بعد سب جنگیں حجاز کے علاقے ہی میں ہوئیں‘ سوائے غزوۂ تبوک کے. لیکن تبوک بھی اصل میں حجاز ہی کا شمالی سرا ہے. اس اعتبار سے حجاز ہی کا علاقہ ہے جس میں قرآن کریم نازل ہوا تھا. تاہم دو آیتیں اس اعتبار سے مستثنیٰ قرار دی جا سکتی ہیں کہ وہ زمین پر نہیں بلکہ آسمان پر نازل ہوئیں . حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے صحیح مسلم میں روایت موجود ہے کہ شب معراج میں اللہ تعالیٰ نے آپ کوجو تین تحفے عطا کیے‘ ان میں نماز کی فرضیت اور دو آیاتِ قرآنی شامل ہیں. یہ سورۃ البقرۃ کی آخری دو آیات ہیں جو عرش کے دو خزانے ہیں جو محمد رسول اللہ کو شب معراج میں عطا ہوئے. تو یہ دو آیتیں مستثنیٰ ہیں کہ یہ زمین پر نازل نہیں ہوئیں بلکہ آپ کو سدرۃالمنتہیٰ پر دی گئیں اور خود آپؐ ساتویں آسمان پر تھے‘ جبکہ باقی پورا قرآن آسمان سے زمین پر نازل ہوا ہے. جغرافیائی اعتبار سے حجاز کا علاقہ مہبط وحی ہے.