چند متفرق مباحث قرآن مجید کی زبان
اب آئیے اگلی بحث کی طرف کہ قرآن مجید کی زبان کیا ہے اور اس زبان کی شان کیا ہے. یہ بات بھی قرآن مجید نے بہت تکرار و اعادہ کے ساتھ بیان کی ہے کہ یہ قرآن عربی مبین میں ہے ‘یعنی شستہ ‘صاف ‘سلیس‘ کھلی اور واضح عربی میں ہے.
قرآن مجید اللہ کا کلام ہے. اس نے جن حروف و اصوات کا جامہ پہنا‘ وہ حروف و اصوات لوحِ محفوظ میں ہیں. اس کے بعد وہ کلامِ الٰہی ‘قولِ جبرائیل علیہ السلام اور قولِ محمدﷺ بن کر نازل ہوا اور لوگوں کے سامنے آیا. چنانچہ سورۃ الزخرف کے آغاز میں ارشاد ہوا:
حٰمٓ ۚ﴿ۛ۱﴾وَ الۡکِتٰبِ الۡمُبِیۡنِ ۙ﴿ۛ۲﴾اِنَّا جَعَلۡنٰہُ قُرۡءٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ ۚ﴿۳﴾
’’حٰم . قسم ہے اس واضح کتاب کی! ہم نے اسے قرآنِ عربی بنایا ہے تاکہ تم سمجھ سکو‘‘ .
قرآن کی مخاطب اوّل قوم حجاز میں آباد تھی .اس سے کہا جا رہا ہے کہ ہم نے اس قرآن کو تمہاری زبان میں بنایا. اس نے اوّلاً حروف و اصوات کا جامہ پہنا ہے‘ پھر تمہاری زبان عربی کا جامہ پہن کر تمہارے سامنے نازل کیا گیا ہے تاکہ تم اس کو سمجھ سکو. یہی بات سورۃ یوسف کے شروع میں کہی گئی ہے:
الٓرٰ ۟ تِلۡکَ اٰیٰتُ الۡکِتٰبِ الۡمُبِیۡنِ ۟﴿۱﴾اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ قُرۡءٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ ﴿۲﴾
’’ا ‘ ل‘ ر . یہ اس کتاب کی آیات ہیں جو اپنا مدعا صاف صاف بیان کرتی ہے. ہم نے اسے نازل کیا ہے قرآن بنا کر عربی زبان میں تاکہ تم سمجھ سکو.‘‘
سورۃ الشعراء میں فرمایا:
بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیۡنٍ ﴿۱۹۵﴾ؕ
’’صاف صاف عربی زبان میں (نازل کیا گیا).‘‘
سورۃ الزمر میں ارشاد فرمایا:
قُرۡاٰنًا عَرَبِیًّا غَیۡرَ ذِیۡ عِوَجٍ لَّعَلَّہُمۡ یَتَّقُوۡنَ ﴿۲۸﴾
’’ایسا قرآن جو عربی زبان میں ہے‘ جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں ہے‘ تاکہ وہ بچ کرچلیں.‘‘
اس میں کہیں کجی نہیں ‘ کہیں کوئی ایچ پیچ نہیں‘ اس کی زبان بہت سلیس‘ شستہ اور بالکل واضح زبان ہے. اس میں کہیں پہیلیاں بجھوانے کا انداز نہیں ہے.
اب نوٹ کیجیے کہ قرآن کی عربی کون سی عربی ہے؟اس لیے کہ عربی زبان ایک ہے مگر اس کے dialects اور اس کی بولیاں بے شمار ہیں. خود جزیرہ نمائے عرب میں متعدد بولیاں تھیں‘ تلفظ اور لہجے مختلف تھے. بعض الفاظ کسی خاص علاقے میں مستعمل تھے اور دوسرے علاقے کے لوگ ان الفاظ کو جانتے ہی نہیں تھے. آج بھی کہنے کو تو مصر‘ لیبیا‘ الجزائر ‘ موریطانیہ اور حجاز کی زبان عربی ہے‘ لیکن اُن کے ہاں جوفصیح عربی کہلاتی ہے وہ تو ایک ہی ہے . وہ درحقیقت ایک اس لیے ہے کہ قرآن مجید نے اسے دوام عطا کیا ہے. یہ قرآن مجید کا عربی زبان پر عظیم احسان ہے .اس لیے کہ دنیا میں دوسری کوئی زبان بھی ایسی نہیں ہے جو چودہ سو برس سے ایک ہی شان اور ایک ہی کیفیت کے ساتھ باقی ہو.اردو زبان ہی کو دیکھئے. ۱۰۰ اور ۲۰۰ برس پرانی اردو آج ہمارے لیے ناقابل فہم ہے. دکن کی اردو ہمیں سمجھ میں نہیں آ سکتی‘ اس میں کتنی تبدیلی ہوئی ہے. اسی طرح فارسی زبان کا معاملہ ہے. ایک وہ فارسی تھی جو عربوں کی آمد اور اسلام کے ظہور کے وقت تھی. عربوں کے ہاتھوں ایران فتح ہوا تو رفتہ رفتہ اس فارسی کا رنگ بدلتا گیا.
اب اس کو پھر بدلا گیا ہے اور اس میں سے عربی الفاظ نکال کر اس کے لہجے بھی بدل دیے گئے ہیں. ایک فارسی وہ ہے جو افغانستان میں بولی جاتی ہے‘ وہ ہماری سمجھ میں آتی ہے. اس لیے کہ جوفارسی یہاں پڑھائی جاتی تھی وہ یہی فارسی تھی. آج جو فارسی ایران میں پڑھائی جا رہی ہے وہ بہت مختلف ہے‘ اپنے لہجے میں بھی اور اپنے الفاظ کے اعتبار سے بھی.لیکن عربی ’’فصیح زبان‘‘ ایک ہے.یہ اصل میں حجاز کے بدوؤں کی زبان تھی. پورا قرآن حکیم حجاز میں نازل ہوا. حجاز میں بادیہ نشین تھے. عربوں کا کہنا تھا کہ خالص زبان بادیہ نشینوں کی ہے ‘شہر والوں کی نہیں. جبکہ مکہ شہر تھا اور وہاں باہر سے بھی لوگ آتے رہتے تھے. قافلے آ رہے ہیں‘ جا رہے ہیں‘ ٹھہر رہے ہیں. جہاں اس طرح کی آمدورفت ہو وہاں زبان خالص نہیں رہتی اور اس میں غیر زبانوں کے الفاظ شامل ہو کر مستعمل ہو جاتے ہیں اور بول چال میں آ جاتے ہیں. خاص اسی وجہ سے مکّہ کے شرفاء اپنے بچوں کو پیدائش کے فوراً بعد بادیہ نشینوں کے پاس بھیج دیتے تھے. ایک تو دودھ پلانے کا معاملہ تھا.دوسرا یہ کہ ان کی زبان صاف رہے‘ خالص عربی زبان رہے اور وہ ہر ملاوٹ سے پاک رہے. تو قرآن مجید حجاز کے بادیہ نشینوں کی زبان میں نازل ہوا.
البتہ یہ ثابت ہے کہ قرآن مجید میں کچھ الفاظ دوسرے قبائل اور دوسرے علاقوں کی زبانوں کے بھی آئے ہیں . علامہ جلال الدین سیوطی نے ایسے الفاظ کی فہرست مرتب کی ہے. اس کے علاوہ کچھ غیر عربی الفاظ بھی قرآن مجید میں آئے ہیں جو مُعرّب ہو گئے ہیں. ابراہیم‘ اسمٰعیل ‘ اسرائیل‘ اسحاق‘ یہ تمام نام درحقیقت عبرانی زبان کے الفاظ ہیں. لفظ ’’اِیل‘‘ عبرانی زبان میں اللہ کے لیے آتاہے اور یہ لفظ ہمارے ہاں قرآن مجید کے ذریعے آیا ہے. اسی طریقے سے ’’سِجِّیْل‘‘ کا لفظ فارسی سے آیا ہے. صحر امیں کہیں بارش کے نتیجے میں ہلکی سی پھوار پڑی ہو تو بارش کے قطروں کے ساتھ ریت کے چھوٹے چھوٹے دانے بن جاتے ہیں اور پھر تیز دھوپ پڑنے پر وہ ایسے پک جاتے ہیں جیسے بھٹے میں اینٹوں کو پکا دیا گیا ہو. یہ کنکر ’’سجیل‘‘ کہلاتے ہیں جو ’’سنگِ گل‘‘ کا معرب ہے.باقی اکثر و بیشتر قرآن مجید کی زبان جس میں یہ نازل ہوا‘ وہ حجاز کے علاقے کے بادیہ نشینوں کی عربی ہے‘ جس میں فصاحت و بلاغت نقطۂ عروج پر ہے اور اس کا لوہا ماناگیا ہے.
اس کے علاوہ قرآن مجید میں ایک صوتی آہنگ ہے. اس کا ایک ’’ملکوتی غنا‘‘ (Divine Music) ہے‘ اس کی ایک عذوبت اور مٹھاس ہے . یہ دونوں چیزیں عرب میں پورے طور پر تسلیم کی گئی ہیں اور لوگوں پر سب سے زیادہ مرعوبیت قرآن حکیم کی فصاحت‘ بلاغت اور عذوبت ہی سے طاری ہوئی . ان کی اپنی زبان میں ہونے کے اعتبار سے ظاہر بات ہے کہ قرآن کے بہترین ناقد بھی وہی ہو سکتے تھے.واضح رہے کہ ادب میں ’’تنقید‘‘ دونوں پہلوؤں کو محیط ہوتی ہے. کسی چیز کی قدر و قیمت کااندازہ لگانا‘ اسے جانچنا‘ پرکھنا. اس میں کوئی خامی ہو تو اس کو نمایاں کرنا‘ اور اگر کوئی محاسن ہوں تو ان کو سمجھنا اور بیان کرنا. اس اعتبار سے اس کی فصاحت و بلاغت کو تسلیم کیاگیا ہے.
میں عرض کر چکا ہوں کہ عربی زبان آج بھی مختلف علاقوں میں مختلف لہجوں اور بولیوں کی شکل اختیار کر چکی ہے.ایک علاقے کی عامی (colloquial) ربی دوسرے لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی تھی. خود نزولِ قرآن کے زمانے میں نجد کے لوگوں کی زبان حجاز کے لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی تھی. اس کی وضاحت ایک حدیث میں بھی ملتی ہے کہ نجد سے کچھ لوگ آئے اور وہ حضورﷺ سے گفتگو کر رہے تھے جو بڑی مشکل سے سمجھ میں آ رہی تھی اور لوگ اسے سمجھ نہیں پا رہے تھے. آج بھی نجد کے لوگ جو گفتگو کرتے ہیں تو واقعہ یہ ہے کہ عربی سے واقفیت ہونے کے باوجود ان کی عربی ہماری سمجھ میں نہیں آتی‘ ان کا لب و لہجہ بالکل مختلف ہے. قرآن حکیم کی زبان حجاز کے بادیہ نشینوں کی ہے. لہذا اگر تحقیق و تدبر قرآن کا حق ادا کرنا ہو تو جاہلیت کی شاعری پڑھنا ضروری ہے. ائمہ لغت نے ایک ایک لفظ کی تحقیق کر کے اور بڑی گہرائیوں میں اتر کر جاہلی شاعری کے حوالے سے جتنے بھی استشہاد ہو سکتے تھے ان کو کھنگال کر قرآن میں مستعمل الفاظ کے مادوں کے مفہوم معین کر دیے ہیں. ایک عام قاری کو‘ جو قرآن سے تذکر کرنا چاہے‘ صرف ہدایت حاصل کرنا چاہے‘ اس کھکیڑ میں پڑنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے.البتہ تدبر قرآن کے لیے جب تحقیق کی جاتی ہے تو جب تک کسی ایک لفظ کی اصل پوری طرح معلوم نہ کی جائے اور اس کے بال کی کھال نہ اتار لی جائے تحقیق کا حق ادا نہیں ہوتا. اس اعتبار سے شعر جاہلی کی زبان کو سمجھنا تدبر قرآن کے لیے یقینا ضروری ہے.